Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 46
وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا
وَّدَاعِيًا : اور بلانے والا اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف بِاِذْنِهٖ : اس کے حکم سے وَسِرَاجًا : اور چراغ مُّنِيْرًا : روشن
اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے،99۔ اور بطور ایک روشن چراغ کے،100۔
99۔ (آیت) ” داعیا الی اللہ “۔ پر ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ 100۔ (سرتاپانمونہ ہدایت ہونے کے لحاظ سے) مفسرین قدیم نے لکھا ہے کہ بجائے آفتاب کے چراغ سے آپ کے تشبیہ دینے میں یہ نکتہ ہے کہ نور آفتاب گو تیز وقوی ہوتا ہے۔ لیکن اس کا فیضان ضعیف ہے اپنا سا کسی کو نہیں بنا سکتا بخلاف اس کے چراغ سے صدہاہزار ہا چراغ جلتے چلے جاتے ہیں۔ چناچہ امت میں فیضان رسول سے قیامت تک اولیاء و ابرار ہوتے رہیں گے۔” احقر کے نزدیک چراغ سے تشبیہ دینے میں یہ نکتہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک تو چراغ تک رسائی آسان ہے۔ پھر چراغ سے ہر وقت نور حاصل کرنا ممکن ہے۔ پھر سہل الحصول ہے، پھر اس سے نور حاصل کرنے میں اکتساب اور قصد کو بھی داخل ہے۔ پھر صحیح المزاج اور صحیح البدن انسان کو اس سے ناگواری کسی وقت نہی ہوتی۔ پھر اس میں شان انیس ہونے کی بھی ہے۔ اور ان سب صفات کو انبیاء (علیہم السلام) کی شان سے زیادہ مناسبت ہے (تھانوی (رح )
Top