Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 49
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا١ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِذَا : جب نَكَحْتُمُ : تم نکاح کرو الْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتوں ثُمَّ : پھر طَلَّقْتُمُوْهُنَّ : تم انہیں طلاق دو مِنْ قَبْلِ : پہلے اَنْ : کہ تَمَسُّوْهُنَّ : تم انہیں ہاتھ لگاؤ فَمَا لَكُمْ : تو نہیں تمہارے لیے عَلَيْهِنَّ : ان پر مِنْ عِدَّةٍ : کوئی عدت تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ : کہ پوری کراؤ تم اس سے فَمَتِّعُوْهُنَّ : پس تم انہیں کچھ متاع دو وَسَرِّحُوْهُنَّ : اور انہیں رخصت کردو سَرَاحًا : رخصت جَمِيْلًا : اچھی طرح
اے ایمان والو ! تم جب مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو تو تمہارے لئے ان کے بارے میں کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرنے لگو،105۔ تو انہیں کچھ مال دے دو ، اور انہیں خوبی کے ساتھ رخصت کردو،106۔
105۔ (اور اس لیے انہیں فوری نکاح ثانی سے کوئی مدت عدت مانع نہیں درآنحالیکہ مدخولہ کی طلاق کی بعد عدت واجب ہوجاتی ہے) (آیت) ” نکحتم “۔ نکاح کے لغوی معنی تو صحبت یا جماع کے ہیں۔ مگر قرآن مجید میں عموما عقد نکاح کے معنی میں آیا ہے۔ (آیت) ” تمسوھن “۔ ہاتھ لگانا کنایہ صحبت سے ہے۔ حقیقۃ یا حکما مثل خلوت صحیحہ کے۔ پس دونوں سے عدت واجب ہے (تھانوی (رح) والخلوۃ الصحیۃ کالمس (مدارک) (آیت) ” اذا نکحتم ال مومنت “۔ الفاظ آیت سے فقہاء مفسرین نے یہ نکالا ہے کہ نکاح گوجائز کتابیہ عورتوں سے بھی ہے۔ لیکن اولی یہی ہے کہ مومنات کے ساتھ کیا جائے۔ وفی تخصیص المومنات مع ان الکتابیات تساوی ال مومن ات فی ھذا الحکم اشارۃ الی ان الاولی بالمومن ان ینکح مومن ۃ (مدارک) (آیت) ” لکم “۔ کی ضمیر مذکر سے فقہاء نے یہ نکالا ہے کہ عدت حق زوج ہے، جیسا کہ ولد حق والد ہے۔ فیہ دلیل علی ان العدۃ تجب علی النساء للرجال (مدارک) 106۔ نکاح ہو، یا طلاق، رفاقت ہو یا افتراق، قرآن خوبی وخوش اسلوبی کی شرط ہر جگہ لگائے ہوئے ہے۔ جو کچھ بھی ہو (آیت) ” سراحا جمیلا “۔ ہو بالمعروف ہو، یعنی شریفانہ طرز پر ہو، حفظ وضع وپ اس ناموس کے ساتھ ہو۔ نفضیح وبدنمائی کی صورت بہرحال نہ پیدا ہونے پائے۔
Top