Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 52
لَا یَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْۢ بَعْدُ وَ لَاۤ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ رَّقِیْبًا۠   ۧ
لَا يَحِلُّ : حلال نہیں لَكَ : آپ کے لیے النِّسَآءُ : عورتیں مِنْۢ بَعْدُ : اس کے بعد وَلَآ : اور نہ اَنْ تَبَدَّلَ : یہ کہ بدل لیں بِهِنَّ : ان سے مِنْ : سے (اور) اَزْوَاجٍ : عورتیں وَّلَوْ : اگرچہ اَعْجَبَكَ : آپ کو اچھا لگے حُسْنُهُنَّ : ان کا حسن اِلَّا : سوائے مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ ۭ : جس کا مالک ہو تمہارا ہاتھ (کنیزیں) وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے رَّقِيْبًا : نگہبان
ان عورتوں کے بعد آپ کے لئے کوئی جائز نہیں،119۔ اور نہ یہی کہ آپ ان بیویوں کی جگہ دوسری کرلیں،120۔ چاہے آپ کو ان کا حسن بھلا ہی لگے مگر ہاں بجز ان کے کہ جو آپ کی باندیاں ہیں، اور اللہ ہر شے کا (پورا) نگراں ہے،121۔
119۔ (چنانچہ اہل قرابت میں سے غیر مہاجر بیویاں حلال نہیں اور دوسری عورتوں میں سے غیر مومن ات حلال نہیں) (آیت) ” من بعد “۔ یعنی ان بیویوں کے علاوہ جن کے اوصاف ابھی بیان ہوچکے۔ قال عکرمۃ والضحاک معنی الایۃ لایحل لک النساء الا اللاتی احللنا لک بالصفۃ التی تقدم ذکرھا (معالم) اے من بعد الاصناف التی سمیت قالہ ابی بن کعب وعکرمۃ وابورزین وھو اختیار محمد بن جریر (قرطبی) 120۔” اس طرح سے کہ ان میں سے کسی کو طلاق دے دیں اور بجائے ان کے دوسری کرلیں، اور یوں بدون ان کے طلاق دیئے ہوئے اگر کسی سے نکاح کرلیں تو اس کی ممانعت نہیں۔ اسی طرح اگر بلاقصد تبدل کسی کو طلاق دیں تو اس کی بھی ممانعت ثابت نہیں۔ بلکہ لفظ تبدل اس مجموعہ کی ممانعت پر دال ہے، پس یہ تبدل ممنوع ہے “۔ (تھانوی (رح) عرب میں ایک دستور یہ بھی تھا کہ شوہر شوہر اپنی بیویوں کا تبادلہ آپس میں کرلیا کرتے تھے۔ چناچہ بعض مفسرین نے آیت کے تحت میں اس رواج جاہلیت کا بھی ذکر کیا ہے۔ کانت العرب فی الجاھلیۃ یتبادلون بازواجھم یقول الرجل للرجل بادلنی بامرأتی (معالم) قال ابن زید ھذا شیء کانت العرب تفعلہ یقول احدھم خذ زوجتی واعطنی زوجتک (قرطبی) 121۔ (تو اس کو اس کی بھی پوری خبر رہتی ہے کہ کون کس کو کس نظر سے دیکھتا ہے، اور اس سے تاثیر میں قصد واختیار کو کتنا دخل ہے) (آیت) ” الا ما ملکت یمینک “۔ اس استثناء نے باندیوں میں تبدل کو رسول اللہ ﷺ کے لیے جائز کردیا۔ (آیت) ” ولو اعجبک حسنھن “۔ قرآن مجید نے اول تو اسے محض بطور احتمال فرض کیا ہے۔ اور احتمالات اس سے کہیں بڑھ بڑھ کر بھی فرض کیے جاسکتے ہیں۔ چناچہ قرآن مجید نے فرض کیے بھی ہیں۔ ، لیکن اگر تحقق واقعۃ بھی کبھی ہوجاتا جب بھی محض اتنے میں کہ کسی نامحرم کے چہرہ پر نظر پڑگئی، اور اس چہرہ کی زیبائی ادراک میں بھی آگئی کوئی قباحت شرعی نہیں۔ یہ تو ایک امر غیر اختیاری ہوا۔ مذموم جو کچھ ہے وہ بالقصد نظر کرنا اور بالقصد اس سے لذت حاصل کرنا ہے۔ فقہاء نے آیت سے یہ بھی نکالا ہے کہ نامحرم کے چہرہ پر نظر کرنی جائز ہے۔ جبکہ اس سے یہ تاثر حسن نہ پیدا ہوتا ہو۔ یدل علی جواز النظر الی وجہ المرأۃ الاجنبیۃ اذلا یعجبہ حسنھا (جصاص) فقہاء نے آیت سے یہ بھی نکالا ہے کہ جس عورت سے شادی کا ارادہ ہو اس کا دیکھنا جائز ہے۔ فی ھذہ الایۃ دلیل علی جواز ان ینظر الرجل الی من یرید زاجھا (قرطبی) اور بعض نے اجازت سے بڑھ کر اس کو ارشاد کے معنی میں لیا ہے۔ الامر بالنظر الی المخطوبۃ انما ھو علی جھۃ الارشاد الی المصلحۃ (قرطبی)
Top