Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 56
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓئِكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ : اور اس کے فرشتے يُصَلُّوْنَ : درود بھیجتے ہیں عَلَي النَّبِيِّ ۭ : نبی پر يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو صَلُّوْا : درود بھیجو عَلَيْهِ : اس پر وَسَلِّمُوْا : اور سلام بھیجو تَسْلِيْمًا : خوب سلام
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی آپ پر رحمت بھیجا کرو، اور خوب سلام بھیجا کرو،132۔
132۔ اللہ کا رحمت بھیجنا تو ظاہر ہی ہے۔ بندوں یعنی فرشتوں اور انسانوں کی صلوۃ بھیجنے کے معنی یہ ہیں کہ انہیں حکم مل رہا ہے کہ رسول پر اس رحمت خاص کی دعا کرتے، اور اسے ان کے حق میں طلب کرتے رہیں۔ اسی کو ہماری زبان میں درود بھیجنا کہتے ہیں۔ الصلوۃ من اللہھی الرحمۃ ومن العباد الدعاء (جصاص) الصلوۃ من اللہ رحمۃ ورضوانہ ومن الملئکۃ الدعاء والاستغفار ومن الامۃ الدعاء والتعظیم لامرہ (قرطبی) (آیت) ” یصلون “۔ صلوۃ سے یہاں مراد رحمت عام نہیں، رحمت خاص ہے، نبی کے شایان شان۔ (آیت) ” یا ...... تسلیما “۔ مومنین کو ذات رسالت کے ساتھ اس طریقہ پر جو ربط پیدا ہوسکتا ہے وہ بالکل ظاہر ہے۔ اور خود رسول اللہ ﷺ کے مراتب عالیہ میں بھی ان دعاؤں سے ترقی واضافہ ممکن ہے ” آپ ﷺ پر سلام بھیجنے کے معنی مجموعہ دوامر کا ہے، ایک دعاء ہے سلامت عن الآفات کی۔ دوسرے ثناء ہے جو اس دعاء کے لئے لازم ہے۔ کیونکہ عرفا یہ صیغہ مخصوص مستحق ثناء ہی کے لئے ہے۔ بس حالت حیات میں تو دونوں کا تحقق ہوسکتا ہے، اور بعد وفات مجرد معنی ثانی رہ جاتے ہیں۔ “ (تھانوی (رح) ” چونکہ اس مقام کے مطالعہ کے وقت احتمال ہے کہ شاید ناظرین کو قصدا صلوۃ وسلام سے ذہول ہوجائے اس لئے ایک مختصر صیغہ عبارت میں لکھ دینا بھی مناسب ہے کہ لکھا ہوا کہ ضرور ہی پڑھیں گے۔ اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی ال سیدنا ومولانا محمد وبارک وسلم “۔ (تھانوی (رح) درود کے واجب ہونے پر تو ہر مذہب کے فقہاء کا اتفاق ہے۔ لیکن فقہاء حنفیہ اور بعض دوسرے ائمہ کی رائے ہے کہ عمر میں ایک بار بھی اگر پڑھ دیا تو فرض ادا ہوگیا۔ قد تضمن الامر بالصلوۃ علی النبی ﷺ وظاہرہ یقتضی الوجوب وھو فرض عندنا فمتی فعلھا الانسان مرۃ واحدۃ فی صلاح او غیر صلاۃ فقد ادی فرضہ وھو مثل کلمۃ التوحید والتصدیق بالنبی ﷺ متی فعلہ الانسان مرۃ واحدۃ فی عمرہ فقد ادی فرضہ (جصاص) لاخلاف للعلماء فی ان ھذا الامر للوجوب وانما الخلاف فی اوقاتہ واعدادہ فعند مالک والطحاوی یجب فی العمر مرۃ والباقی مندوب (احمدی) ولاخلاف فی ان الصلاۃ علیہ فرض فی العمر مرۃ (قرطبی) (آیت) ” علی النبی “۔ محققین نے کہا ہے کہ بجائے اسم ذات محمد لانے کے، جیسا کہ قرآن کا عام دستور حضرات انبیاء کے معاملہ میں ہے۔ اسم صفت النبی لانا آپ ﷺ کے مزیداعزاز واکرام کے لئے ہے۔ وعبربالنبی دون اسمہ ﷺ علی خلاف الغالب فی حکایتہ تعالیٰ عن انبیاۂ (علیہم السلام) اشعارا بما اختص بہ ﷺ من مزید الفخامۃ والکرامۃ وعلو القدر (روح)
Top