Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 69
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا١ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَكُوْنُوْا : تم نہ ہونا كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اٰذَوْا : انہوں نے ستایا مُوْسٰى : موسیٰ فَبَرَّاَهُ : تو بری کردیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِمَّا : اس سے جو قَالُوْا ۭ : انہوں نے کہا وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَجِيْهًا : باآبرو
اے ایمان والو، ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایذا پہنچائی تھی،146۔ سو اللہ نے انہیں بری ثابت کردیا،147۔ اور اللہ کے نزدیک وہ بڑے معزز تھے،148۔
146۔ (طرح طرح کی تہمتیں لگاکر) بنی اسرائیل کا معاملہ اپنے سردارو پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ عجیب و غریب تھا۔ یہ لوگ طرح طرح انہیں چھیڑتے ہر ہر طرح ان کی نافرمانی کرتے، عجیب عجیب طرح انہیں غضب میں لاتے۔ یہاں ممکن ہے کہ اشارہ کسی خاص واقعہ کی جانب ہو، یا اسی عام مفسدانہ روش سے متعلق۔ آیت میں اشارہ نکلتا ہے ایذاء رسول اللہ ﷺ کی حرمت کا، خواہ وہ ایذاء براہ راست ذات رسول سے متعلق ہو یا بواسطہ اصحاب وازواج وغیرہ۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس میں عام مسلمانوں کو بھی ممانعت ہے، جو اولیاء متقین کو ایسے امور کی تہمت سے تکلیف پہنچاتے رہتے ہیں جن کی ان کو خبر بھی نہیں۔ 147۔ (ہر ہر الزام اور تہمت سے جو آپ (علیہ السلام) پر لگاتے رہتے تھے) چناچہ نقصان آپ (علیہ السلام) کو تو کچھ نہ پہنچا۔ مستحق عذاب وہی تہمت لگانے والے ٹھہرے۔ 148۔ اللہ نے ان کی برأت ظاہر فرمادی۔ اور آج تک ان کا نام دنیا میں روشن چلا آرہا ہے) (آیت) ” وجیھا “۔ وجیہ کے معنی عربی میں بڑے معزز، صاحب منزلت کے آتے ہیں۔ الوجیہ عندالعرب العظیم القدر الرفیع المنزلۃ (قرطبی) آپ (علیہ السلام) کی وجاہت آخرت میں تو انشاء اللہ دوست و دشمن سب ہی کو نظر آجائے گی۔ باقی آج یہ حال ہے کہ ساری دنیا آپ کو ایک مفنن اعظم (A.greAt, Low, giver) سمجھ رہی ہے اور دنیا کے تینوں کتابی مذاہب، یہودیت، اسلام، مسیحیت آپ (علیہ السلام) کے پیغمبر برحق ہونے پر متفق ہیں۔
Top