Tafseer-e-Majidi - Faatir : 12
وَ مَا یَسْتَوِی الْبَحْرٰنِ١ۖۗ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَآئِغٌ شَرَابُهٗ وَ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ١ؕ وَ مِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا١ۚ وَ تَرَى الْفُلْكَ فِیْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَمَا يَسْتَوِي : اور برابر نہیں الْبَحْرٰنِ ڰ : دونوں دریا ھٰذَا : یہ عَذْبٌ فُرَاتٌ : شیریں پیاس بجھانے والا سَآئِغٌ شَرَابُهٗ : آسان اس کا پینا وَھٰذَا : اور یہ مِلْحٌ اُجَاجٌ ۭ : شور تلخ وَمِنْ كُلٍّ : اور ہر ایک سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو لَحْمًا : گوشت طَرِيًّا : تازہ وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ : اور تم نکالتے ہو حِلْيَةً : زیور تَلْبَسُوْنَهَا ۚ : جس کو پہنتے ہو تم وَتَرَى : اور تو دیکھتا ہے الْفُلْكَ : کشتیاں فِيْهِ : اس میں مَوَاخِرَ : چیرتی ہیں پانی کو لِتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو مِنْ فَضْلِهٖ : اس کے فضل سے (روزی) وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : تم شکر کرو
اور دونوں دریا برابر نہیں ہیں ایک شیریں پیاس بجھانے والا ہے اس کا پینا بھی آسان اور ایک شور تلخ ہے اور ہر ایک سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو،23۔ اور زیور نکالتے ہو جسے تم پہنتے ہو،24۔ اور تو کشتیوں کو اس میں پانی کو پھاڑتی ہوئی چلتے دیکھتا ہے، تاکہ اس کی (دی ہوئی) روزی تلاش کرو اور تاکہ تم شکرگذار ہو،25۔
23۔ (مچھلیوں کا) (آیت) ” ومن کل “۔ کھانے والی مچھلیاں، نمکین وتلخ سمندر، اور شیریں وخوش ذائقہ دریاؤں سب میں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ (آیت) ” البحرن “۔ دونوں قسم کے پانیوں پر حاشیے پہلے گزر چکے۔ 24۔ (آیت) ” حلیۃ “۔ یا زیور سے اس سیاق میں مراد موتی اور مونگا وغیرہ ہیں۔ جو انسانی لباس، زیور آرائش وغیرہ کے کام میں آتے ہیں۔ اے اللؤلؤ والمرجان (روح) والمراد اللالی والیواقیت (بیضاوی) 25۔ آیت میں ایک طرف تو دنیا کے نظام الہی کی وحدت، تنظیم ومنافع بخشی سے صانع کی توحید اور کمال قدرت اور کمال صنعت اور صفت نعمت بخشی پر استدلال ہے، اور دوسری طرف صاف ترغیب مل رہی ہے بحری تجارت کی۔ وہ تجارت جو آج بیسویں صدی عیسوی میں بھی شاید سب سے بڑا ذریعہ شخصی دولت اور قومی ثروت دونوں کا ہے اور جسے مسلمان گویا صدیوں سے بالکل بھول ہی چکے ہیں۔ ملاحظہ ہوں سورة لقمان (پ 21) کے حاشیے (آیت) ” لتبتغوا من فضلہ “۔ یعنی ان کشتیوں کے ذریعہ سے سفر وتجارت کرکے نفع حاصل کرو، بحری تجارت کی اہمیت ومنفعت عظیم کے قائل ہمارے مفسرین قدیم بلکہ تابعین بھی رہ چکے ہیں۔ اے باسفارکم بالتجارۃ من قطر الی قطر واقلیم الی اقلیم (ابن کثیر) قال مجاھد التجارۃ فی الفلک الی البلدان البعیدۃ فی مدۃ قریبۃ (قرطبی) (آیت) ” لعلکم تشکرون “۔ یعنی ان کامیاب بحری تجارتوں کے بعدبہک نہ جاؤ۔ عیش و عشرت اور غفلت میں نہ پڑجاؤ۔ دین واخلاق کی راہ پر قائم رہو۔
Top