Tafseer-e-Majidi - Faatir : 32
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا١ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ١ۚ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ١ۚ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُؕ
ثُمَّ : پھر اَوْرَثْنَا : ہم نے وارث بنایا الْكِتٰبَ : کتاب الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اصْطَفَيْنَا : ہم نے چنا مِنْ : سے۔ کو عِبَادِنَا ۚ : اپنے بندے فَمِنْهُمْ : پس ان سے (کوئی) ظَالِمٌ : ظلم کرنے والا لِّنَفْسِهٖ ۚ : اپنی جان پر وَمِنْهُمْ : اور ان سے (کوئی) مُّقْتَصِدٌ ۚ : میانہ رو وَمِنْهُمْ : اور ان سے (کوئی) سَابِقٌۢ : سبقت لے جانے والا بِالْخَيْرٰتِ : نیکیوں میں بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ : حکم سے اللہ کے ذٰلِكَ : یہ هُوَ : وہ (یہی) الْفَضْلُ : فضل الْكَبِيْرُ : بڑا
پھر ہم نے یہ کتاب ان لوگوں کے ہاتھ میں بھی پہنچائی جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا،44۔ پھر ان میں سے بعض تو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض ان میں سے متوسط ہیں اور بعض ان میں سے اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں ترقی کئے چلے جاتے ہیں، یہ بہت ہی بڑا فضل ہے،45۔
44۔ (اور انہیں کا مجموعی نام ملت اسلامی یا امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول اللہ ﷺ کے توسط یہ کتاب الہی کی امانت اب امت محمدی ﷺ کے ہاتھ میں پہنچی ہے، اور وہی دنیا کی ساری ملتوں میں سے حق تعالیٰ کی پسند کی ہوئی جماعت ہے۔ (آیت) ” الذین اصطفینا من عبادنا “۔ سب کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد امت مومنین ہے۔ وھم اھل الایمان وعلیہ الجمھور (مدارک) وھم کما قال ابن عباس ؓ وغیرہ امۃ محمد ﷺ (روح) وھم ھذہ الامۃ (ابن کثیر) امام ابو یوسف (رح) سے دریافت کیا گیا کہ آیت میں جن طبقات کا ذکر ہے، یہ کون لوگ ہیں۔ آپ نے فرمایا سب مسلمان ہیں۔ سئل ابویوسف (رح) عن ھذہ الایۃ فقال کلھم مومنون (مدارک ( 45۔ مسلمانوں کی یہاں تین قسمیں ہوئی ہیں۔ پہلی قسم۔ (آیت) ” ظالم النفسہ “۔ یعنی ہیں تو مسلمان، لیکن گناہ کرکے اپنی جانوں پر ظلم کررہے ہیں۔ امام رازی (رح) نے چند اور صفات بھی بیان کیے ہیں۔ مثلا ظالم وہ ہے جس کے سئیات زائد ہوں، یا جس کا ظاہر باطن سے بہتر ہو، یا جو صاحب کبیرہ ہو، یا جو بعد حساب قابل نار ہو۔ (آیت) ” مقتصد “۔ یہ دوسری قسم ہے یعنی نہ تو گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اور نہ طاعت ہی میں کچھ ترقی کرتے ہیں۔ بس بقدر ضرورت پر اکتفاء کیے ہوئے ہیں امام رازی (رح) نے کچھ اور بھی خصوصیات ذکر کیے ہیں۔ مثلا مقتصد وہ ہے جس کے خیر وشر مساوی ہوں یا جس کا ظاہر و باطن یکساں ہو، یا جو صاحب صغیرہ ہو۔ یا جو بعد حساب نجات پائے۔ (آیت) ” سابق بالخیرت “۔ یہ تیسری قسم ہوئی کہ گناہوں سے بچتے بھی ہیں اور طاعات میں فرائض کے علاوہ بھی بہت ہمت کیے رہتے ہیں۔ امام رازی (رح) کے الفاظ میں (آیت) ” سابق بالخیرت “۔ وہ ہے جس کے حسنات زائد ہوں یا جس کا باطن ظاہر سے بہتر ہو، یا جو گناہوں سے محفوظ ہو، یا جو بےحساب و کتاب جنت میں جائے۔ (آیت) ” ذلک “۔ یعنی ایسی کامل کتاب کا مسلمانوں کو حامل بنادینا۔ اے ایراث الکتاب (مدارک) (آیت) ” فمنھم ظالم لنفسہ “۔ آیت کا یہ جز اس باب میں نص صریح ہے کہ مومن باوجود سخت گناہگار ہونیکے بہرحال مغفور ہی ہوتا ہے۔ اور یہ تصریح مسلک خارجیت کی جڑ کاٹ دینے کے لیے کافی ہے۔ قال ابن عطاء وانما قدم الظالم لئلا ییأس من فضلہ وقیل انما قدمہ لیعرفہ ان ذنبہ لایبعدہ من ربہ (مدارک) بعض تفسیری اقوال میں یہاں تک آگیا ہے کہ (آیت) ” ظالم لنفسہ “۔ وہ ہے جو بلاتوبہ کیے گناہ کبیرہ پر فوت ہوجائے۔ قال معاذ الظالم لنفسہ الذی مات علی کبیرۃ لم یتب منھا (روح) اوراقوال رجال سے قطع نظر خود لفظ قرآنی بھی اس طبقہ کی گنہگاری واضح کرنے کو کیا کم ہے۔ اس پر بھی ان سب کے مغفور ہونے پر نہ صرف جمہور اہلسنت کا اتفاق ہے۔ بلکہ احادیث نبوی میں متعدد طریقوں سے اس کی صراحت موجود ہے۔ ذیل کی حدیثیں بعض قرطبی میں بعض ابن کثیر میں اور بعض روح المعانی میں حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ؓ ، حضرت انس ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت اسامہ بن زید ؓ ، حضرت ابوسعید خدری ؓ ، حضرت ابوالدرداء ؓ ، صحابیوں کی روایت اور محدثین ابن مردیہ (رح) ، ابن النجار (رح) ، حکیم ترمذی (رح) بہیقی (رح) ، طیالسی (رح) ، احمد بن حنبل (رح) ، عقیلی (رح) ، عبد بن حمید (رح) ، حاکم (رح) ، طبرانی (رح) ، ابن جریر (رح) ، ابن منذر (رح) وغیرھم کے حوالے سے درج ہوئی ہیں : ھؤلاء کلھم بمنزلۃ واحدۃ وکلھم فی الجنۃ کلھم من ھذہ الامۃ وکلھم فی الجنۃ سابقنا سابقا ومقتصدنا ناج وظالمنا مغفورلہ۔ یہ سب طبقات ایک ہی حکم میں ہیں۔ اور یہ سب اہل جنت ہیں یہ سب اسی امت میں ہیں۔ اور سب اہل جنت ہیں ہمارے سابق (وہاں بھی) سابق ہوں گے، اور ہمارے مقتصد نجات یاب اور ہمارے ظالم مغفور ہوں گے۔ صاحب روح المعانی کہتے ہیں :۔” والذی یعصدہ معظم الروایات والاثار ان الاصناف الثلثۃ من اھل الجنۃ فلا ینبغی ان یلتفت الی تفسیر الظالم بالکافر۔” روایات اہم اور آثار سے تقویت اسی کی ہوتی ہے کہ تینوں طبقات اہل جنت ہی کے ہیں اس لیے (آیت) ” ظالم “۔ کی تفسیر کافر سے کرنا قابل التفات بھی نہیں “۔ اور پھر محدث بیہقی کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ :۔ قال البیھقی اذا کثرت الروایات فی حدیث ظھر ان للحدیث اصلا والاخبار فی ھذا الباب کثیرۃ وفی ما ذکر کفایۃ ” جب کوئی حدیث کثیر طریقوں سے روایت کی گئی ہو تو اس حدیث کی اصلیت تو ضرور ہوتی ہے اور اس باب میں روایات کثرت سے آئی ہیں جتنی نقل کردی گئی ہیں وہ کافی ہیں “۔ اور ابن کثیر (رح) نے لکھا ہے :۔ والصحیح ان الظالم لنفسہ من ھذہ الامۃ وھذا اخیتار ابن جریر کماھو ظاھر الایۃ وکما جآئت بہ الاحادیث عن رسول اللہ ﷺ من طرق یشد بعضھا بعضا۔” صحیح یہی ہے کہ (آیت) ” ظالم لنفسہ “۔ اسی امت کے لوگ ہیں اور یہی ابن جریر (رح) نے بھی کہا ہے جیسا کہ خود آیت قرآنی کا ظاہر ہے اور جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں میں ہے جو ایک دوسرے کو تقویت پہنچانے والے طریقوں سے وارد ہوئی ہیں “۔ اور امام رازی (رح) نے کہا ہے کہ کافر تو ظالم علی الاطلاق ہوتے ہیں، لیکن (آیت) ” ظالم لنفسہ “۔ کا مصداق مومن ہوتا ہے کہ وہی معصیت کے وقت اپنے نفس کو اس کے موضع صحیح سے ہٹا کر رکھتا ہے اور خود حضرت آدم (علیہ السلام) کی دعاء میں ان کے مقبول اور صاحب اصطفاء ہونے کے باوجود (آیت) ’ ’ ظلمنا انفسنا “۔ کی صراحت موجود ہے (کبیر) اور ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ سے اس باب میں جو اثر محدث طیالسی نے نقل کیا ہے، وہ بدرجہ غایت بلیغ ہے۔ ایک سائل کے جواب میں آپ فرماتی ہیں :۔ یابنی ھؤلآء فی الجنۃ اما السابق بالخیرات فمن مضی علی عہد رسول اللہ ﷺ واما المقتصد فمن اتبع اثرہ من اصحابہ حتی لحق بہ واما الظالم لنفسہ فمثلی ومثلکم۔” اے بیٹا ! اہل جنت تو یہ سب طبقہ ہیں۔ ان میں (آیت) ” سابق بالخیرت “۔ وہ ہیں۔ جو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں گزر گئے۔ (آیت) ” اور مقتصد “۔ وہ اصحاب رسول ہیں جو آپ ﷺ کے بعد بھی آپ ﷺ کی پیروی اپنے آخر دم تک کرتے رہے، اور (آیت) ” ظالم لنفسہ “۔ کا مصداق میں اور تم جیسے لوگ ہیں۔
Top