Tafseer-e-Majidi - Faatir : 41
اِنَّ اللّٰهَ یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا١ۚ۬ وَ لَئِنْ زَالَتَاۤ اِنْ اَمْسَكَهُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُمْسِكُ : تھام رکھا ہے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین اَنْ : کہ تَزُوْلَا ڬ : ٹل جائیں وہ وَلَئِنْ : اور اگر وہ زَالَتَآ : ٹل جائیں اِنْ : نہ اَمْسَكَهُمَا : تھامے گا انہیں مِنْ اَحَدٍ : کوئی بھی مِّنْۢ بَعْدِهٖ ۭ : اس کے بعد اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے حَلِيْمًا : حلم والا غَفُوْرًا : بخشنے والا
بیشک اللہ ہی آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں،53۔ اور اگر وہ ٹلنے لگیں بھی تو پھر اللہ کے سوا کوئی بھی انہیں تھام نہیں سکتا،54۔ بیشک وہ بڑا حلم والا ہے، بڑا مغفرت والا ہے،55۔
53۔ (اپنے انتظام معین وہیئت مقرر سے) آیت میں بتایا ہے کہ حق تعالیٰ دنیا کا خالق وفاطر ہی نہیں، بلکہ اس کا منتظم، مدبر، حاکم بھی ہے، وہی اپنے دست قدرت سے اس کے سارے انتظامات بھی سنبھالے ہوئے ہے۔ یہ نہیں کہ پیدا کرنے والے برہماجی ہوں، پالنے والے اور حفاظت کرنے والے، وشنوجی، اور مارنے والے شیوجی، !۔ غرض مختصر سی عبارت سے متعدد جاہلی تخیلات پر ضرب لگ گئی، لفظ امساک سے یہ مراد لینا کسی طرح بھی صحیح نہیں کہ حق تعالیٰ (نعوذ باللہ) کسی بڑے عظیم الشان دیوپیکر دیوتا کی طرح زمین و آسمان کی باگیں اپنے ہاتھ میں پکڑے اور سمیٹے ہوئے بیٹھے ہیں ! امساک سے مراد صرف ان اجرام کی ہیئت منتظمہ پر انہیں قائم رکھنا ہے، اور وہ جن قوانین طبعی کے واسطہ سے ہو قانون کشش اجسام وغیرہ یہ سب اللہ ہی کے امساک کے ذریعے اور واسطے میں ہیں۔ (آیت) ” ان تزولا “۔ زوال سے مراد صرف ہیئت موجودہ منتظمہ سے ان کا انتقال ہے نہ کہ مطلق حرکت۔ اس لیے آیت سے آسمان و زمین کے سکون وعدم حرکت پر استدلال کرنا تمامتر لغو ہے۔ 54۔ تو جب دوسروں سے اس نظم عالم کی حفاظت ہی نہیں ہوسکتی، تو جواہر واعراض کے ایجاد واحداث کا کیا ذکر۔ (آیت) ” لئن زالتا “۔ یعنی اگر وہ ٹلنے کے قریب ہوجائیں۔ ٹلنے پر آجائیں۔ اے ان اشرفتا علی الزوال (روح) (آیت) ” من احد “۔ من زائد ہے تاکید نفی کے لئے یعنی کوئی بھی۔ من مزیدۃ لتاکید النفی (مدارک) (آیت) ” من بعدہ “۔ بعد یہاں بجز یا علاوہ کے معنی میں ہے۔ بعدہ اے سواہ (جلالین) 55۔ (آیت) ” حلیما “۔ اور اسی صفت حلم کے تقاضہ سے شرک جیسی کھلی ہوئی اور انتہائی گستاخی پر بھی انہیں فورا سزا نہیں دیتا۔ (آیت) ” غفورا “۔ اور اسی صفت غفر کے تقاضہ سے ان سے اب بھی درگزر کرنے کو تیار ہے اگر یہ اپنی شرارتوں سے باز آجائیں۔
Top