Tafseer-e-Majidi - Yaseen : 47
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ١ۙ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰهُ اَطْعَمَهٗۤ١ۖۗ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمْ : ان سے اَنْفِقُوْا : خرچ کرو تم مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ ۙ : اللہ قَالَ : کہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ان لوگوں سے جو ایمان لائے (مومن) اَنُطْعِمُ : کیا ہم کھلائیں مَنْ : (اس کو) جسے لَّوْ يَشَآءُ اللّٰهُ : اگر اللہ چاہتا اَطْعَمَهٗٓ ڰ : اسے کھانے کو دیتا اِنْ : نہیں اَنْتُمْ : تم اِلَّا : مگر۔ صرف فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کچھ تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرو، تو کافر مومنوں سے کہتے ہیں کہ کیا ہم ان لوگوں کو کھانے کو دیں جنہیں اگر خدا چاہے تو (بہت کچھ) کھانے کو دے دے تم تونری کھلی غلطی میں پڑے ہوئے ہو،33۔
33۔ یہ بیان ہے منکرین کی مستقل قساوت قلب اور عدم تاثر کا۔ (آیت) ” من ایۃ ‘ من زائدہ تاکید واستغراق کے لئے ہے۔ متکبرین رؤساء قریش سے جب کہا جاتا تھا کہ غریبوں مسکینوں کی اعانت کرو (جو عموما مسلمان ہی تھے) تو وہ طنزیہ جواب یہ دیتے تھے کہ ہم سے ان غریبوں کی اعانت کو کہتے ہو۔ حالانکہ تمہیں یہ بھی کہتے ہو کہ تمہارا خدا رزاق مطلق ہے، وہ جس کو چاہے روزی دے، تو خود وہ کیوں نہیں انہیں روزی دیتا۔ طنز عجیب مہمل تھا۔ خدا کی رزاقی بھی تو اسی کی ہر صفت کی طرح اسی عالم اسباب میں انسانوں ہی کے واسطہ سے ظہور کرتی ہے۔ مسلمانوں کا یہ دعوی کب تھا کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں عادۃ رزاق بلاواسطہ اور بلاذریعہ اسباب ہے۔ (آیت) ” انفقوا ممارزقکم اللہ “۔ یعنی اپنی آمدنیوں میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرتے رہو ..... قریش کے امراء ودولتمند عموما کافر تھے اور مسکین افراد عموما مسلمان۔
Top