Tafseer-e-Majidi - Yaseen : 57
لَهُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ وَّ لَهُمْ مَّا یَدَّعُوْنَۚۖ
لَهُمْ : ان کے لیے فِيْهَا : اس میں فَاكِهَةٌ : میوہ وَّلَهُمْ : اور ان کے لیے مَّا يَدَّعُوْنَ : جو وہ چاہیں گے
ان کے لئے وہاں میوے ہوں گے اور ان کے لئے وہ (سب کچھ) جو کچھ وہ مانگیں گے،38۔
38۔ (بلکہ بلاطلب بھی پاتے رہیں گے) نقشہ جنت کی غیر فانی راحتوں اور لاثانی آسائشوں کا پیش ہورہا ہے۔ (آیت) ” فی شغل “۔ شغل سے ہر وہ دل پسند مشغلہ مراد ہے جو ذوق کو بالکل گھیر لے۔ العارض الذی یذھل الانسان (راغب) ھو الشان الذی یصدر المرء ویشغلہ عما سواہ من شؤنہ لکونہ اھم عندہ من الکل (روح) اور انسان کے دل پسندمشغلوں کا نہ حصرممکن ہے نہ شمار۔ اور لفظ شغل کے صیغہ نکرہ سے مقصود بھی لذتوں کی وسعت واہمیت کا اظہار ہے۔ (آیت) ” مایدعون “۔ کی وسعت اطلاق و جامعیت قابل لحاظ ہے۔ جسمانی، دماغی، روحانی، ہر قسم کی ہر ممکن لذت، راحت، مسرت نعمت اس کے عموم میں آگئی، اہل جنت جو کچھ بھی چاہیں گے، جو کچھ بھی مانگیں گے سب ہی کچھ ان کیلئے حاضر وموجود ہوگا۔ (آیت) ” یدعون “۔ کی تفسیر یہاں یتمنون سے بھی کی گئی ہے گویا مانگنے کی ضرورت بھی نہ ہوگی۔ ادھر تمنا پیدا ہوئی اور ادھر وہ شے حاضر وموجود ہوگئی۔۔ قیل یتمنون (کشاف) اے یتمنون ویشتھون (معالم) لیکن اگر (آیت) ” یدعون “۔ کو طلب ہی کے معنی میں رکھا جائے جب بھی کیا مضائقہ ہے بلکہ کسی لذیذ ومحبوب شے کا طلب کرنا، جب کہ اس کا مل جانا اور فورا مل جانا اور فورا مل جانا یقینی ہو، بجائے خود ایک لذت ہے۔
Top