Tafseer-e-Majidi - Yaseen : 26
وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗ١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌۙ
وَمَا عَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے نہیں سکاھیا اس کو الشِّعْرَ : شعر وَمَا يَنْۢبَغِيْ : اور نہیں شایان لَهٗ ۭ : اس کے لیے اِنْ : نہیں هُوَ : وہ (یہ) اِلَّا : مگر ذِكْرٌ : نصیحت وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ : اور قرآن واضح
اور ہم نے آپ کو شعر و شاعری نہیں سکھلائی اور نہ وہ آپ کی شایان ہے،45۔ یہ (قرآن) تو ایک نصیحت اور کھلی ہوئی آسمانی کتاب ہے،46۔
45۔ (بحیثیت آپ کی پیغمبری کے) قرآن مجید کہتا ہے کہ یہ احمق مشرک آپ کے بیان کئے ہوئے مضامین عالیہ کو مؤثر پاکر اسے شاعری کی ساحری قرار دے رہے ہیں، جو ان بیچاروں کا منتہائے فکر ہے۔ شاعری یعنی تخییلی مضمون آفرینی کو مرتبہ نبوت سے مناسبت ہی کیا آپ کے ہاں تو حقائق ہی حقائق ہیں، کہاں یہ، کہاں شاعر کی بہتر سے بہتر خیال بندیاں، وہ تو اس سے کہیں فرو مرتبہ چیز ہے۔ ھذا ردلما کانوا یقولونہ من ان القران شعر والنبی ﷺ شاعر وغرضھم من ذلک ان ما جآء بہ (علیہ الصلوۃ والسلام) من القران افتراء تخیل (روح) (آیت) ” الشعر “۔ شعر یہاں اپنے معروف و متعارف معنی میں مراد نہیں یعنی کلام موزوں ومقفی کامرادف نہیں، بلکہ شعر سے یہاں مراد جھوٹی خیال آرائیاں اور حقیقت وواقعیت سے عاری منصوبہ بندیاں ہیں ...... شعر اور شاعر عربی میں گویا کذب وکاذب ہی کے مرادف ہیں۔ انھا رموابا لکذب فان الشعر یعبربہ من الکذب والشاعر الکاذب حتی سمی قوم الادلۃ الکاذبۃ الشعریۃ (راغب) واما معنی فلان الشعر تخیلات مرغبۃ اومنفرۃ اونحو ذلک وھو مقر الاکاذیب (روح) (آیت) ” وما ینبغی لہ “۔ یہاں سے شعر کی پستی کا استنباط کیا گیا ہے۔ وفی الایۃ دلالۃ علی غضاضۃ الشعر وھی ظاھرۃ فی انہ ﷺ لم یعط طبیعۃ شعریۃ اعتناء بشانہ ورفعا لقدرہ (روح) 46۔ (ایسی پر حقائق و لبریز معارف تعلیمات کو شاعرانہ تخیل آرائی سے مناسبت ہی کیا) (آیت) ” قرآن مبین “۔” کھلی ہوئی کتاب “ اپنی تعلیمات اور اپنے احکام کی وضاحت کے لحاظ سے۔
Top