Tafseer-e-Majidi - Yaseen : 82
اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَمْرُهٗٓ : اس کا کام اِذَآ : جب اَرَادَ شَيْئًا : وہ ارادہ کرے کسی شے کا اَنْ : کہ يَّقُوْلَ : وہ کہتا ہے لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتی ہے
وہ تو بس جب کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو کہہ دیتا ہے کہ ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے،56۔
56۔ یعنی وہ خلاق مطلق ہے، محض اپنے ارادہ مشیت سے، معدوم کو موجود کردینے والا، اسے حاجت نہ مادہ کی نہ روح کی نہ ہیولی کی نہ کسی اور چیز کی۔ (آیت) ” لہ “۔ ضمیر اس مخلوق کی اس صورت کی طرف ہے جو حق تعالیٰ کے علم میں ہوتی ہے۔ (آیت) ” کن فیکون “۔ حاشیہ سورة البقر (پ 1) میں گزر چکا۔ (آیت) ”’ اذا ...... فیکون “۔ محاورہ میں یہ محض انتہائی سرعت تکوین کا بیان ہے۔ یہ مراد نہیں کہ حق تعالیٰ کی زبان سے حروف ک اور ن (جو خود ہی حادث ہیں) کا مرکب ادا ہوتا ہے۔ تذئیل احادیث : میں سورة یس ٓ کے فضائل بکثرت وارد ہوئے ہیں، اسے قلب قرآن سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور نزع کیو قت اسے بیمار کے اوپر پڑھ کر دم کرنے کو اکسیر بتایا گیا ہے۔ 26۔ ربیع الاول 1360 ؁ھ (13۔ اپریل 1941 ء۔ ) کو میری ضعیف العمر والدہ ماجدہ نے اپنی شدت علالت کے وقت مجھ نامہ سیاہ سے اس سورة کے پڑھنے کی فرمائش کی، اور یہی ان کا آخری کلام مجھ سے تھا۔ تعمیل ارشاد اسی وقت کردی گئی، اور انہیں تسکین ہوگئی، چار پانچ گھنٹہ کے بعد سکرات کی کیفیت طاری ہوگئی، اور ان کے سرہانے بیٹھ کر میں نے پھر یہی سورت شروع کی، ان کا دم کھنچتا جاتا تھا، اور میں باواز بلند پڑھتا جاتا تھا۔ آیہ کریمہ ” سلم، قولا من رب رحیم “۔ کو تکرار کرکے تین بار پڑھا ادھر سورة کی آخری آیت کے آخری لفظ (آیت) ” والیہ ترجعون “۔ زبان پر ادا ہوئے کہ ادھر اس شفقت مجسم کی روح نے جسد خاکی کو خالی کردیا۔ (آیت) ” ان للہ وانا الیہ راجعون “۔ قارئین کرام سے التجا ہے کہ جب یہ سطریں ان کی نظر سے گذریں سو اس تباہ کار اس مرحومہ دونوں کے حق میں دعا خیر ودعا مغفرت کے لئے ایک منٹ کو رک جائیں عین کرم و احسان ہوگا۔
Top