Tafseer-e-Majidi - Az-Zumar : 10
قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ١ؕ اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : جو اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوْا : تم ڈرو رَبَّكُمْ ۭ : اپنا رب لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جنہوں نے اَحْسَنُوْا : اچھے کام کیے فِيْ : میں هٰذِهِ الدُّنْيَا : اس دنیا حَسَنَةٌ ۭ : بھلائی وَاَرْضُ اللّٰهِ : اور اللہ کی زمین وَاسِعَةٌ ۭ : وسیع اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُوَفَّى : پورا بدلہ دیا جائے گا الصّٰبِرُوْنَ : صبر کرنے والے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
آپ کہہ دیجیے اے میرے ایمان والے بندو اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو، جو لوگ اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک صلہ ہے اور اللہ کی زمین فراخ ہے،20۔ ثابت قدم رہنے والوں کو بھی اجر بیشمار ملے گا،21۔
20۔ (اس لیے اگر کسی خاص سرزمین میں احکام دین پر عمل کا موقع نہیں ملتا تو ترک وطن کرکے کسی اور ملک میں چلے جاؤ) (آیت) ”۔ للذین ...... حسنۃ “۔ یہ صلہ نیک آخرت میں تو ملتا ہی ہے، باقی دنیا میں نیک کاروں کا تسکین و راحت خاطر کی حد تک ضرور مل جاتا ہے۔ (آیت) ” یا ...... ربکم “۔ یہ تقوی اختیار کرنے کا حکم کن کو مل رہا ہے ؟ ان کو جو پہلے ہی سے مومن ہیں۔ اور یہ خود ایک قوی دلیل ہے (معتزلہ وخوارج کے خلاف) اس حقیقت پر کہ ایمان، عدم تقوی یا فسق یا معصیت کے ساتھ جمع رہ سکتا ہے، ھذا من ادل الدلائل علی ان الایمان یبقی مع المعصیۃ (کبیر) وذلک یدل علی ان الفسق لایزیل الایمان (کبیر) 21۔ (آیت) ” انما “۔ کے کلمہ حصر سے یہ نکتہ نکالا گیا ہے کہ بلاصبر کے کوئی اجر نہیں، اور ہر اجر کے مقابلہ میں کوئی نہ کوئی درجہ صبر کا تو بہرحال ہونا چاہیے۔ اور ہر عمل عبادت میں نفس کی آزادی پر صبر و مجاہدہ کا بند کسی درجہ میں تو لگانا ہوتا ہی ہے۔ (آیت) ” الصبرون “۔ یعنی دین پر ثابت قدم رہنے والوں کو۔ ابھی ذکر ہجرت کا تھا۔ لیکن کوئی مہاجر ایسا نہیں جسے شدید صعوبتوں کے اندر سے ہو کر نہ گزرنا پڑتا ہو۔ اس لیے معاذکر انکے اجر اور اجر بےحساب کا کردیا گیا۔ والمراد الذین صبروا علی مفارقۃ اوطانھم وعشائرھم وعلی تجرع الغصص و احتمال البلایا فی طاعۃ اللہ تعالیٰ (کبیر)
Top