Tafseer-e-Majidi - Az-Zumar : 15
فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ اَهْلِیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ
فَاعْبُدُوْا : پس تم پرستش کرو مَا شِئْتُمْ : جس کی تم چاہو مِّنْ دُوْنِهٖ ۭ : اس کے سوائے قُلْ : فرمادیں اِنَّ : بیشک الْخٰسِرِيْنَ : گھاٹا پانے والے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : گھاٹے میں ڈالا اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو وَاَهْلِيْهِمْ : اور اپنے گھر والے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ : روز قیامت اَلَا : خوب یاد رکھو ذٰلِكَ : یہ هُوَ : وہ الْخُسْرَانُ : گھاٹا الْمُبِيْنُ : صریح
سو تمہارا دل جس چیز کو چاہے عبادت کرو اللہ کو چھوڑ کر،24۔ آپ کہ دیجیے کہ پورے زیاں کار وہی لوگ ہیں جو اپنی جانوں سے اور اپنے متعلقین سے قیامت کے روز خسارہ میں پڑے یاد رکھو کہ یہی صریح خسارہ ہے،25۔
24۔ (قیامت کے دن اس کا انجام آپ ہی دیکھ لو گے) ظاہر ہے کہ یہ پورا فقرہ تہدید کے لہجہ میں ہے، یہ مراد نہیں کہ مشرکوں کو اختیار دیا جارہا ہے۔ (آیت) ” مخلصا لہ دینی “۔ یعنی اسی کے حکم کے مطابق، بلاشائبہ شرک، محققین نے کہا ہے کہ اس سے وجوب عبادت واخلاص دونوں کا ثابت ہوتا ہے اخلاص بلاعبادت روح بےجسد ہے، اور عبادت بلااخلاص جسد بےروح 25۔ (کہ آخری فیصلہ کے دن خسارہ ہو۔ اور جان و متعلقین جو دنیا میں نفع و راحت وتمتع کا ذریعہ رہتے ہیں، وہ قیامت کے دن ذرا بھی یہ کام نہ دے سکیں گے) (آیت) ” الا ..... المبین “۔ یہاں خسران کی شدید تاکید ملحوظ رہے، ایک تو فقرہ کی ابتداء ہی کلمہ تنبیہ سے کی، پھر خسران کو معرفہ بناکر (آیت) ” الخسران “۔ کیا، اور پھر وصف مبین کا اضافہ کیا۔ (آیت) ” الخسرین “۔ سے مراد ہر جہتی خسران کامل اٹھانے والوں سے سمجھی گئی ہے۔ اے الکاملین فی الخسران الجامعین لوجوھہ واسبابہ (کشاف)
Top