Tafseer-e-Majidi - Az-Zumar : 18
الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ
الَّذِيْنَ : وہ جو يَسْتَمِعُوْنَ : سنتے ہیں الْقَوْلَ : بات فَيَتَّبِعُوْنَ : پھر پیروی کرتے ہیں اَحْسَنَهٗ ۭ : اس کی اچھی باتیں اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جنہیں هَدٰىهُمُ اللّٰهُ : انہیں ہدایت دی اللہ نے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ هُمْ : وہ اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
میرے انہیں بندوں کو جو (اس) کلام کو کان لگا کر سنتے ہیں، پھر اس کی اچھی اچھی باتوں پر چلتے ہیں،28۔ یہی ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی اور یہی ہیں جو ذی عقل ہیں،29۔
28۔ (اور اس کی سب باتیں اچھی ہی ہیں) (آیت) ” یستمعون “۔ استماع کے معنی سمجھنے کے طور پر سننے کے ہیں۔ (آیت) ” القول “۔ سے مراد کلام حق ہے۔ (آیت) ” احسنہ “۔ احسن سے یہاں مراد حسن ہے۔ (آیت) ” البشری “۔ ترکیب کلام سے معنی حصر کے پیدا ہوگئے ہیں، یعنی بشارت ایسوں ہی کے حق میں ہے۔ سب کے لیے نہیں ہے۔ اے لھم لالغیر ھم (کبیر) (آیت) ” البشری “۔ ال بھی اسی حصر کی تاکید مزید کے لیے ہے۔ ان ھذہ الماھیۃ بتمامھا لھؤلاء ولم یبق منھا نصیب لغیرھم (کبیر) (آیت) ” الطاغوت “۔ طاغوت ہر وہ ہستی ہے جو طغیان میں حد سے تجاوز کرجائے مراد یہاں شیطان یا شیاطین سے لی گئی ہے۔ فسرہ ھنا بالشیطان مجاھد ویجوز تفسیر ھا بالشیاطین جمیعا (روح) 29۔ قرآن مجید نے بار بار اہل عقل وفہم انہیں کو قرار دیا ہے جو راہ ہدایت اختیار کرتے، اور اس پر قائم رہتے ہیں، واقعہ ہے بھی یہی کہ جن لوگوں کو اپنی نجات کی فکر تک نہ ہو، اور دل میں تحقیق حق کا اہتمام ہی نہ ہو، انہیں عقل کے مبادی سے بھی بہرہ ور کی سے تسلیم کیا جائے، (آیت) ” اولئک .... اللہ “۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو کوئی اپنی طرف سے حصول ہدایت کا اہتمام رکھتا ہے، اس پر راہ ہدایت ضرور کھل جاتی ہے۔
Top