Tafseer-e-Majidi - Az-Zumar : 22
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ١ؕ اُولٰٓئِكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس ۔ جس شَرَحَ اللّٰهُ : اللہ نے کھول دیا صَدْرَهٗ : اس کا سینہ لِلْاِسْلَامِ : اسلام کے لیے فَهُوَ : تو وہ عَلٰي : پر نُوْرٍ : نور مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ : اپنے رب کی طرف سے فَوَيْلٌ : سو خرابی لِّلْقٰسِيَةِ : ان کے لیے ۔ سخت قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل مِّنْ : سے ذِكْرِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی یاد اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
سو جس شخص کا سینہ اللہ نے اسلام کیلئے کھول دیا، اور وہ اپنے پروردگار کے نور پر چل رہا ہے ( کیا ایسا شخص اور اہل قساوت برابر ہوسکتے ہیں ؟ ) سو بڑی خرابی ان لوگوں کے لئے ہے جن کے دل اللہ کے ذکر کی طرف سے سخت ہیں، یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں،33۔
33۔ پہلا شخص وہ ہے جو ہدایت کے مقتضی پر چل رہا ہے، اور یقین صحیح پیدا کرکے اس کے مطابق عمل کررہا ہے، دوسرا وہ ہے جو کھلے ہوئے دلائل و شواہد کے باوجود ایمان نہیں لاتا اور اس سے بڑھ کر اس کے قساوت قلب کی مثال اور کیا ہوگی۔ (آیت) ” افمن ...... ربہ “۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ صحابی کی روایت میں آتا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی تو ہم نے عرض کی، کہ یارسول اللہ ! یہ شرح صدر کیونکر ہوتا ہے ؟ فرمایا جب دل میں نور داخل ہو، عرض کی کیا علامت ہے ؟ ارشاد ہوا کہ دارالخلودیا باقی کی طرف رغبت و استقامت، اور دارالغرور یافانی کی طرف سے بےالتفاتی اور موت کی طرف آمادگی، (معالم) (آیت) ” فویل “۔ اس سے بڑی خرابی کا ظہور آخرت میں ہوگا۔ (آیت) ” للقسیۃ قلوبھم “۔ یہ قساوت قلب، شرح صدر کے مقابلہ میں آئی ہے، رقت قلب کی طبعی کمی یا فقدان کو اس سے کوئی تعلق نہیں، شرح صدر کے جو خصوصیات بتائے گئے اس قساوت میں اس کے برعکس پیدا ہوجاتے ہیں، محققین نے آیت کے مضمون سے دو نکتے اور پیدا کیے ہیں، ایک یہ کہ ہر مومن کسی درجہ میں بھی سہی، بہرحال صاحب معرفت ونور ہے، دوسرے یہ کہ جس اسلام سے معرفت ونورانیت پیدا ہوتی ہے، وہ، وہ ہے جو شرح صدر یعنی رغبت تام اور یقین کامل کے ساتھ ہو، نہ وہ جو منافقت یا جبر یا وہم و عادت کا ثمرہ ہے۔
Top