Tafseer-e-Majidi - Az-Zumar : 32
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللّٰهِ وَ كَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَآءَهٗ١ؕ اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِیْنَ
فَمَنْ : پس کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنْ : سے ۔ جس كَذَبَ : جھوٹ باندھا عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ وَكَذَّبَ : اور اس نے جھٹلایا بِالصِّدْقِ : سچائی کو اِذْ : جب جَآءَهٗ ۭ : وہ اس کے پاس آئے اَلَيْسَ : کیا نہیں فِيْ جَهَنَّمَ : جہنم میں مَثْوًى : ٹھکانا لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے
تو اس سے بڑھ کر بےانصاف کون ہے جو اللہ پر جھوٹ لگائے اور سچی بات کو جھٹلائے جبکہ وہ اس کے پاس پہنچے، کیا (ایسے) کافروں کا ٹھکانا جہنم میں نہ ہوگا ؟ ،44۔
44۔ (یعنی ضرور ہوگا) استفہام انکاری سے اثبات قطعی کے معنی پیدا کرنا انگریزی اور اردو اور فارسی کی طرح عربی میں بھی عام ہے۔ (آیت) ” فمن “۔یعنی جبکہ فیصلہ یہی ہونا ہے کہ اہل کفر کو جہنم نصیب ہو اور اہل ایمان کو اجر ونجات۔ (آیت) ” کذب علی اللہ “۔ اللہ پر جھوٹ لگانا یہی ہے کہ اس کی صفت تفرد کا انکار کرکے کسی کو اس کا شریک قرار دیاجائے۔ (آیت) ” الذین جآء بالصدق “۔ الصدق یعنی پیغام حق۔ یہاں مراد قرآن ہے اور اس کے لانے والے رسول اللہ ﷺ تھے۔ قال مجاھد وقتادۃ والربیع بن انس وابن زید ھو الرسول (ابن کثیر) قال ابن عباس ؓ یعنی رسول اللہ (معالم) (آیت) ” کذب ........ جآء ہ “۔ پیام حق پہنچنے کا ذریعہ خود رسول یا ان کے کوئی نائب ہی ہوتے ہیں۔ بعض اکابر نے کہا ہے کہ آیت اپنے عموم لفظ سے ان لوگوں کو بھی شامل ہے، جو دعوئے ولایت میں کاذب ہیں، اور شریعت کو پس پشت ڈال کر اسے محض قشر بتاتے ہیں۔
Top