Tafseer-e-Majidi - Az-Zumar : 44
قُلْ لِّلّٰهِ الشَّفَاعَةُ جَمِیْعًا١ؕ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
قُلْ : فرمادیں لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے الشَّفَاعَةُ : شفاعت جَمِيْعًا ۭ : تمام لَهٗ : اسی کے لیے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹو گے
آپ کہہ دیجئے سفارش تمامتر اللہ ہی کے اختیار میں ہے اسی کی سلطنت آسمانوں اور زمین میں ہے پھر تم اسی کی طرف لوٹ کرجاؤ گئے،58۔
58۔ یعنی اس وقت بھی کائنات کے طول وعرض میں حکومت اسی اللہ کی ہے اور آخرت میں بھی فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہوگا۔ (آیت) ” قل ...... جمیعا “۔ مشرک قوموں نے تو علی العموم اور اہل کتاب میں سے مسیحیوں نے شفاعت کو بھی ایک شعبہ الوہیت کا قرار دے کر شافع کو مستقلا ایک قادر و متصرف ہستی سمجھ لیا ہے۔ اور عملا اسی سے اپنا تعلق جوڑے رکھنا کافی سمجھتے ہیں جس کے بعد خالق کائنات سے تعلق قائم رکھنے کی بھی چنداں ضرورت نہیں، شفاعت اس معنی میں اور اس مفہوم کے ساتھ ایک تمامتر مشرکانہ عقیدہ ہے، اور قرآن مجید نے اس معنی میں کسی غیر اللہ کے شافع ہونے سے تمامتر انکار کیا ہے اور بتایا ہے کہ اختیار و تصرف یکسر حق تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر انگریزی۔ مسئلہ شفاعت انبیاء وغیرہ جس محدود ومقید معنی میں حق ہے۔ اس کی وضاحت ان حواشی میں جابجا کی جاچکی ہے۔
Top