Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 103
فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِكُمْ١ۚ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ١ۚ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا   ۧ
فَاِذَا : پھر جب قَضَيْتُمُ : تم ادا کرچکو الصَّلٰوةَ : نماز فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ قِيٰمًا : کھڑے وَّقُعُوْدًا : اور بیٹھے وَّعَلٰي : اور پر جُنُوْبِكُمْ : اپنی کروٹیں فَاِذَا : پھر جب اطْمَاْنَنْتُمْ : تم مطمئن ہوجاؤ فَاَقِيْمُوا : تو قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز اِنَّ : بیشک الصَّلٰوةَ : نماز كَانَتْ : ہے عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) كِتٰبًا : فرض مَّوْقُوْتًا : (مقررہ) اوقات میں
پھر جب تم (اس) نماز کو ادا کرچکو تو اللہ کی یاد میں لگ جانا کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے،291 ۔ اور پھر جب تمہیں اطمینان حاصل ہوجائے تو نماز کی اقامت کرو،292 ۔ بیشک نماز تو ایمان والوں پر پابندی وقت کے ساتھ فرض ہے،293 ۔
291 ۔ (غرض ہر صورت میں حال کے مناسب) علی ای حال کنتم (قرطبی) (آیت) ” علی جنوبھم “۔ کے لفظی معنی ہیں۔ اپنے پہلوؤں پر۔ یا اردو محاروہ میں مراد لیٹنے سے ہے۔ (آیت) ” فاذکروا للہ “۔ مطلب یہ ہوا کہ تخفیف نماز میں تو یہ ہوگئی باقی ذکر الہی میں کوئی تخفیف نہیں۔ اور اسی لیے ہے۔ یہاں تک کہ عین قتال کے وقت بھی ذکر الہی دل سے تو جاری ہی رہ سکتا ہے۔ محققین نے کہا ہے کہ احکام شریعت کا اتباع بجائے خود ذکر الہی ہے۔ (آیت) ” فاذا قضیتم الصلوۃ “۔ الصلوۃ سے یہاں مراد وہی نماز خوف ہے جس کی ایک ہیئت مخصوص ہے عام نمازی ہئیت سے ہٹی ہوئی۔ اس نماز کے لئے لفظ (آیت) ” قضیتم “۔ ارشاد فرمانا اس کی دلیل ہے کہ یہ بظاہر نامکمل، ناتمام نماز بھی عنداللہ ادا ہوجاتی ہے۔ 292 ۔ (اصلی قاعدہ کے مطابق اور پورے شرائط کے ساتھ) (آیت) ” اقیموا الصلوۃ “۔ صلوۃ اصلی کے لئے یہاں اقامت استعمال کرنا اس کی دلیل ہے کہ اقامت صلوۃ سے مراد نماز کا اس کے جملہ شرائط ہی کے ساتھ ادا کرنا ہوتا ہے۔ (آیت) ” فاذا اطماننتم “ َ یعنی سفر اور خوف کی حالتیں ختم ہوجائیں۔ 293 ۔ یہاں نماز کی صفت یہ بیان ہوئی کہ وہ علاوہ فرض ہونے (کتابا) کے پابندی وقت کے لحاظ سے فرض ہے۔ (آیت) ” موقوتا “۔ اس لئے سوا حالت معذوری کے، اسے وقت سے ہٹا دینا جائز نہ ہوگا۔ موقاتا ای محدود الاوقات لایجوز اخراجھا من اوقا تھا فی شیء من الاحوال (روح) مفسر تھانوی (رح) نے فرمایا ہے کہ فرض ہونے کی وجہ سے اس کا ادا کرنا ضرور ہے اور موقت ہونے کی وجہ سے وقت پر ہی ادا کرنا ضرور۔ اس لئے مخصوص حالات میں اس کی ہئیت کچھ کچھ تبدیل کردی گئی تھی۔ جب وہ عارض دور ہوگیا تو اس کی اصل ہئیت واجب الحفظ ہوگئی۔
Top