Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 105
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاۙ
اِنَّآ : بیشک ہم اَنْزَلْنَآ : ہم نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ (سچی) لِتَحْكُمَ : تاکہ آپ فیصلہ کریں بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ بِمَآ اَرٰىكَ : جو دکھائے آپ کو اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ تَكُنْ : ہوں لِّلْخَآئِنِيْنَ : خیانت کرنیولے (دغا باز) کے لیے خَصِيْمًا : جھگڑنے ولا (طرفدار)
یقیناً ہم نے آپ کتاب حق کے ساتھ اتاری ہے تاکہ آپ لوگوں کے درمیان فیصلہ اس کے مطابق کریں جو اللہ آپ کو سجھا دیا ہے،297 ۔ اور (ان) خائنوں کے طرفدار نہ ہوجائیے،298 ۔
297 ۔ (اسی قرآن کے ذریعہ سے) (آیت) ” ارک اللہ “۔ یہاں بتادیا، سمجھادیا، سکھا دیا کے مفہوم میں ہے۔ بما اراک اللہ ای بما علمک (راغب) بما علمک اللہ فی القرآن (ابن عباس ؓ (آیت) ” بالحق “۔ یعنی قانون عدل کے مطابق آیت اس باب میں صریح ہے کہ فیصلہ جو کچھ بھی کئے جائیں قرآن ہی کے مطابق وماتحت کئے جائیں نہ کہ اپنے ہوائے نفس کے موافق یا کسی انسانی دماغ کے گڑھے ہوئے آئین ودستور کے ماتحت آیت کا پس منظر یہ ہے کہ انصار کے قبیلہ بنوابیرق کے ایک گھرانے میں تین بھائی بشیر، بشر اور مبشر مسلمان تھے اور ان کا ایک بھائی بشیر منافق تھا۔ ایک مرتبہ چور حضرت رفاعہ بن زید انصاری ؓ کے گھر میں نقب لگا کر ان کے ہتھیار اور میدے کی ایک بوری لے گئے۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ بشیر منافق اور اس کے بدمعاش ساتھیوں نے چوری کی ہے۔ حضرت رفاعہ ؓ نے اپنے برادرزادہ جناب قتادہ بن نعمان سے کہا کہ تم آستان نبوت میں جاکر واقعہ بیان کرو تو عجب نہیں کہ ہمارا مال مل جائے۔ انہوں نے جاکر سارا واقعہ آنحضرت ﷺ کے گوش گزار کیا۔ جب بشیر کے اقرباء نے سنا کہ نبی ﷺ کے پاس استغاثہ ہوا تو وہ آکر کہنے لگے یا رسول اللہ ! قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا رفاعہ ہمارے آدمی پر جو مسلمان ہوچکا ہے ناحق چوری کی تہمت لگاتے ہیں۔ “ اس کے بعد قتادہ حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے فرمایا تم ایسے شخص پر بغیر کسی ثبوت کی تہمت لگاتے ہو جو دائرہ اسلام میں داخل ہوچکا ہے ؟ یہ سن کر قتادہ ؓ کے دل میں آرزو ہوئی کہ کاش میں نے آپ سے چوری کی شکایت نہ کی ہوتی، تھوڑی دیر گزری تھی کہ خالق کرد گار نے اپنے رسول پاک ﷺ پر یہ آیت نازل فرمائی۔ (ترمذی ابواب تفسیر القرآن) 298 ۔ خائنوں سے بنو ابیرق مراد ہیں۔ جب یہ آیتیں نازل ہوئیں تو بنوابیرق نے بشیر اور اس کے ساتھیوں کو مجبور کرکے چوری کا مال برآمد کرلیا اور تمام اسلحہ نبی ﷺ کے پاس بھجوادیئے۔ بشیر نفاق کا لباس فریب اتار کر علانیہ مشرکوں سے جاملا۔ (ترمذی)
Top