Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 112
وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓئَةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِهٖ بَرِیْٓئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يَّكْسِبْ : کمائے خَطِيْٓئَةً : خطا اَوْ اِثْمًا : یا گناہ ثُمَّ : پھر يَرْمِ بِهٖ : اس کی تہمت لگا دے بَرِيْٓئًا : کسی بےگناہ فَقَدِ احْتَمَلَ : تو اس نے لادا بُهْتَانًا : بھاری بہتان وَّاِثْمًا : اور گناہ مُّبِيْنًا : صریح (کھلا)
اور جو کوئی کسی قصور یا گناہ کا ارتکاب کرے پھر اس کی تہمت کسی بےگناہ پر لگا دے تو درحقیقت اس نے ایک بڑ ابہتان اور کھلا ہوا گناہ اپنے سر لے لیا،306 ۔
306 ۔ (اور اپنے جرم کی کئی گنابڑھا دیا) تو بہ نہ کرنا اپنی جگہ پر نادم ومنفعل نہ ہونا، تلافی وکفارہ اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہ کرنا یہ جرائم بجائے خود ! کیا کم ہیں۔ چہ جائیکہ اپنا گناہ الٹا کسی بےگناہ کے سرتھوپ دیا جائے۔ قرآنی اخلاقیات میں یہ جرم ضمیر واخلاق کی انتہائی پستی کا نمونہ ہے اور اس لئے لازمی طور پر اس پر گرفت بھی سخت رکھی گئی ہے۔ (آیت) ” خطءٓۃ “۔ وہ چھوٹا گناہ ہے جس میں قصد وتعمد لازمی نہیں یا وہ گناہ ہے ج وصرف خدا اور بندہ کے درمیان ہو۔ الخطیۃ قد تکون من قبل العمد وغیر العمد (ابن جریر) ای صغیرۃ اوما لاعمد فیہ من الذنوب (روح) ذنب بینہ وبین ربہ (مدارک) اثم۔ وہ بڑا گناہ ہے جس میں قصد وتعمد لازمی طور پر ہو۔ یا جو بندوں کا گناہ ہو۔ الاثم لایکون لاامن العمد (ابن جریر) اوکبیر ۃ او ما لایکون من العمد (روح) ذنب فی مظالم العباد (مدارک)
Top