Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 129
وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْۤا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْا كُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْهَا كَالْمُعَلَّقَةِ١ؕ وَ اِنْ تُصْلِحُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
وَلَنْ : اور ہرگز نہ تَسْتَطِيْعُوْٓا : کرسکو گے اَنْ : کہ تَعْدِلُوْا : برابری رکھو بَيْنَ النِّسَآءِ : عورتوں کے درمیان وَلَوْ : اگرچہ حَرَصْتُمْ : بہتیرا چاہو فَلَا تَمِيْلُوْا : پس نہ جھک پڑو كُلَّ الْمَيْلِ : بلکل جھک جانا فَتَذَرُوْھَا : کہ ایک کو ڈال رکھو كَالْمُعَلَّقَةِ : جیسے لٹکتی ہوئی وَاِنْ : اور اگر تُصْلِحُوْا : اصلاح کرتے رہو وَتَتَّقُوْا : اور پرہیزگاری کرو فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور تم سے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ تم بیویوں کے درمیان (پورا پورا) عدل کرو خواہ تم اس کی (کیسی ہی) خواہش رکھتے ہو،340 ۔ تو تم بالکل ایک ہی طرف نہ ڈھلک جاؤ،341 ۔ اور اسے ادھر میں لٹکی ہوئی کی طرح چھوڑ دو ،342 ۔ اور اگر تم (اپنی) اصلاح کرلو اور تقوی اختیار کرو تو اللہ بیشک بڑا بخشنے والا ہے بڑا مہربان ہے،343 ۔
340 ۔ (سو یہ حد تمہارے اختیار سے باہر ہے۔ اس لئے تم اس حد کے مکلف بھی نہیں) (آیت) ” ان تعدلوا بین النسآء “۔ برابری ہر چیز میں، یہاں تک کہ رغبت قلب اور امور غیر اختیاری میں بھی، شروع سورت میں جہاں چار تک کی تعداد ازواج کی اجازت صراحت کے ساتھ مرحمت ہوئی تھی، (آیت) ” فانکحوا ماطاب لکم من النسآء مثنی وثلث وربع “۔ وہاں معنی یہ بھی ارشاد ہوا تھا کہ ان کے درمیان عدل رکھنا اور اگر عدل نہ کرسکو تو ایک ہی پر قناعت رکھنا۔ (آیت) ” وان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ۔ اس موقع پر عدل سے مراد تھی عدل معاملات میں، عدل امور اختیاری میں، یعنی ہر بیوی کی ضروریات کا، مزاح و مذاق کا لحاظ رکھنا، بہ خلاف اس کے یہاں جس عدل کی نفی کی جارہی ہے اور ارشادہوررہا ہے کہ ایسے عدل پر تم قادر ہی نہیں ہوسکتے چاہے لاکھ اس کی تمنا کرو، (آیت) ’ ولن تستطیعوا ان تعدلوا بین النسآء “۔ اس عدل سے مراد ہے مساوات امور غیر اختیاری میں، کیفیات قلب میں، مثلا محبت ورغبت میں اور ایسی مساوات کامل تو والدین تک عادۃ اپنی ساری اولاد کے درمیان نہیں رکھ سکتے۔ لفظ عدل دونوں جگہ مشترک ہے لیکن مفہوم الگ الگ ہے۔ اور اس اسلوب بیان کی مثالیں قرآن مجید میں کثرت سے ملتی ہیں۔ اخبر تعالیٰ بنفی الا ستطاعۃ فی العدل بین النساء وذلک فی میل الطبع فی المحبۃ والجماع والحظ فی القلب (قرطبی) روی عن ابی عبیدۃ قال یعنی المودۃ ومیل الطباع وکذلک روی عن ابن عباس والحسن وقتادۃ (جصاص) پس بعض جدید محرفین نے اس آیت سے یہ جو نکالنا چاہا ہے کہ قرآن مجید نے عدل بین الازواج کو ناممکن بتایا ہے اور تعداد ازدواج کی اجازت صرف عدل کے ساتھ دی ہے تو اس طرح اس اجازت کو ایک بار دے کر پھر واپس لے لیا ہے تو ایسے لوگوں نے نادانستہ سہی، لیکن بہرحال قرآن پر بڑا ظلم کیا ہے۔ اور اس کی جانب بےتکلف اس عیب کو منسوب کردیا ہے کہ وہ جس چیز کو روکنا چاہتا ہے اسے براہ راست منع نہیں کردتیا بلکہ اس کے لئے خواہ مخواہ ایک پر پیچ راستہ اختیار کرتا ہے۔ 341 ۔ (کہ مساوات کامل اور رغبت قلب کی بےاختیاری کو بہانہ کرکے بیوی کے ظاہری اور اپنے اختیار کے اندر والے حقوق بھی پامال کرنے لگو) قال مجاھد لا تتعمدوا الاساء ۃ بل الزموا التسویۃ فی القسم والنفقۃ لان ھذا مما یستطاع (قرطبی) 342 ۔ (کہ وہ بیچاری نہ تو عام شوہر والیوں کی طرح اپنے حقوق سے مستفید ہوتی رہے۔ اور نہ طلاقنوں کی طرح اپنے کو آزاد وخود مختار پائے) (آیت) ” فتذروھا “۔ میں ضمیر مؤنث مظلوم بیوی کی جانب ہے۔ ای لاھی مطلقۃ ولا ذات زوج قالہ الحسن (قرطبی) التی لیست ذات بعل ولا مطلقۃ (بیضاوی) شریعت نے اس ادھر میں پڑی رہنے والی کو حالت کو بدترین قرار دیا ہے۔ شوہر کو چاہیے کہ اپنے امکان بھر پوری کوشش حسن معاشرت کی اور تعلق زوجیت کے حق کی کرے۔ لیکن جب دیکھے کہ کوئی صورت اس میں کامیابی کی نہیں تو پھر صاف طور پر قاعدہ شرعی کے مطابق طلاق دیدے، یہ ظالمانہ صورت بہرحال نہ اختیار کرے کہ عورت سہاگن اور شوہردارہو، لیکن حقیقۃ اپنے کسی حق سے بھی متمتع نہیں ہورہی ہے۔ 343 ۔ (سو اس کے ہاں ماضی کی اصلاح حال کی احتیاط اور مستقبل کے عزم احتیاط کے بعد تمام تر مغفرت و رحمت ہی ہے) (آیت) ” ان تصلحوا “ َ یعنی اپنی پچھلی بدعنوانیوں کی اصلاح حسب قاعدہ شرعی کرلو۔ (آیت) ” تتقوا “۔ اس تقوی کا تعلق حال اور مستقبل سے ہے۔
Top