Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 137
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ یَكُنِ اللّٰهُ لِیَغْفِرَ لَهُمْ وَ لَا لِیَهْدِیَهُمْ سَبِیْلًاؕ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے ثُمَّ كَفَرُوْا : پھر کافر ہوئے وہ ثُمَّ : پھر اٰمَنُوْا : ایمان لائے ثُمَّ كَفَرُوْا : پھر کافر ہوئے ثُمَّ : پھر ازْدَادُوْا كُفْرًا : بڑھتے رہے کفر میں لَّمْ يَكُنِ : نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيَغْفِرَ : کہ بخشدے لَھُمْ : انہیں وَ : اور لَا لِيَهْدِيَھُمْ : نہ دکھائے گا سَبِيْلًا : راہ
بیشک جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے پھر کفر میں ترقی کرتے گئے اللہ ہرگز نہ ان کی مغفرت کرے گا اور نہ انہیں سیدھی راہ دکھائے گا،363 ۔
363 ۔ (جنت وہدایت کی) ذکر ان لوگوں کا ہے جو اسلام پر قائم نہ رہے بلکہ مرتد ہوگئے۔ اور دوبارہ ایمان لاکر پھر بھی ایمان پر قائم نہ رہے۔ اور توبہ نہ کی، بلکہ اسی حالت کفر و ارتداد پر ختم ہوگئے۔ مگر متعین طور پر کون گروہ مراد ہے ؟ ایک قول ہے کہ یہود مراد ہیں۔ پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے۔ پھر انہی کی زندگی میں گوسالہ پرستی کی اور کافر ہوگئے۔ تائب ہوئے اور ان کی ذریت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے انکار کرکے پھر کافر ہوگئی، اور آخر میں رسول اللہ ﷺ سے انکار کرکے اپنا کفر بڑھاتے ہی رہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مرتدین کا کوئی خاص گروہ مراد ہے۔ جو مکرر مرتد ہوا اور آخر تک مرتد رہا۔ تیسرا قول اور یہ سب سے زیادہ لگتا ہوا ہے۔ یہ ہے کہ مراد منافقین ومتردودین ومذبذبین ہیں اور مقصود ان کے ترددوتذبذب کا اظہار ہے نہ کہ ان کے ارتداد کا تعدد۔ سیاق قرآنی بھی منافقین ہی کو چاہتا ہے۔ کنا نحسبھم المنافقین ویدخل فی ذلک من کان مثلھم (ابن جریر، عن مجاہد) ھولآء المنافقون (ابن جریر۔ عن ابن زید) روی عن ابن عباس ان الایۃ فی المترددین (بحر) لیس المراد بیان ھذا العدد بل المراد ترددھم کما قال مذبذبین بین ذلک (کبیر عن القفال) جعلھا ابن عباس عامۃ لکل منافق فی عہدہ ﷺ فی البر والبحر (روح) (آیت) ” لم یکن اللہ لیغفر لھم “۔ بہ ظاہر نفی تاکید ہے۔ حالانکہ واقعۃ تاکید نفی کے لئے ہے۔ ان نفی التاکید اذا ذکر علی سبیل التھکم کان المراد منہ المبالغۃ فی تاکید النفی (کبیر)
Top