Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 140
وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ یُكْفَرُ بِهَا وَ یُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖۤ١ۖ٘ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْكٰفِرِیْنَ فِیْ جَهَنَّمَ جَمِیْعَاۙ
وَقَدْ : اور تحقیق نَزَّلَ : اتار چکا عَلَيْكُمْ : تم پر فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اَنْ : یہ کہ اِذَا سَمِعْتُمْ : جب تم سنو اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتیں يُكْفَرُ : انکار کیا جاتا ہے بِھَا : اس کا وَيُسْتَهْزَاُ : مذاق اڑایا جاتا ہے بِھَا : اس کا فَلَا تَقْعُدُوْا : تو نہ بیٹھو مَعَھُمْ : ان کے ساتھ حَتّٰي : یہانتک کہ يَخُوْضُوْا : وہ مشغول ہوں فِيْ : میں حَدِيْثٍ : بات غَيْرِهٖٓ : اس کے سوا اِنَّكُمْ : یقیناً تم اِذًا : اس صورت میں مِّثْلُھُمْ : ان جیسے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ جَامِعُ : جمع کرنے والا الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق (جمع) وَالْكٰفِرِيْنَ : اور کافر (جمع) فِيْ جَهَنَّمَ : جہنم میں جَمِيْعَۨا : تمام
اور وہ تمہارے اوپر یہ (فرمان) کتاب میں نازل ہی کرچکا ہے کہ جب تم اللہ کی نشانیوں کے ساتھ کفر اور تمسخر ہوتا ہواسنو تو ان لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو، یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں مشغول ہوجائیں کہ اس حال میں یقیناً تم بھی انہی جیسے ہوجاؤ گے،366 ۔ بیشک اللہ دوزخ میں منافقوں اور کافروں سب کو اکٹھا کرے گا،367 ۔
366 ۔ (نفس معصیت میں) یہ مثلیت اور یکسانی نفس معصیت میں ہوگی۔ رونہ منکرین کا استہزاء ظاہر ہے کہ کفر اعتقادی سے پیدا ہوتا ہے۔ ای فی الذر اذا مکثتم معھم ولم یرد بہ التمثیل من کل وجہ فان خوض المنافقین فیہ کفر ومکث ھولآء معھم معصیۃ (مدارک) ای فی العصیان وان لم تبلغ معصیتھم منزلۃ الکفر (جصاص) (آیت) ” فی الکتب “۔ حوالہ اسی کتاب قرآن کا ہے۔ واذا رایت الذین یخوضون فی ایتنا فاعرض عنھم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ (سورۂ انعام آیت 67) یہ سورة نساء مدنی ہے اور سورة انعام اس سے بہت قبل کی مکی ہے۔ (آیت) ” ایت اللہ “۔ اللہ کی نشانیوں کا لفظ عام ہے۔ قرآن مجید کی آیتیں بھی انہی میں شامل ہیں۔ حکم کی تکرار یعنی ایک بار مکہ میں نزول اور دوبارہ مدینہ میں، حکم کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہ کفر اور تمسخر کرنے والے تھے کون لوگ ؟ مکہ میں تو مشرکین تھے اور مدینہ میں یہ ود اور منافقین۔ آیت کا حکم عام ہے۔ بےدینی کا ہر مشغلہ، کفر و انکار کا ہر مظاہرہ اس کے تحت میں آجاتا ہے۔ مسیحی یا ہندوانہ تعلیمی، تہذیبی، معاشرتی وسیاسی ماحول کے جو گہرے اثرات طبعی طور پر مسلمانوں پر پڑ رہے ہیں، وہ سب اس وعید کے ماتحت آجاتے ہیں۔ اپنے شعائر و اصول دین پر مضحکہ سنتے رہنا خواہ وہ اسکولوں اور کالجوں میں ہو یا بازاروں اور میلوں میں یا تھیڑوں اور سینماؤں میں، یوں بھی بہرصورت بڑی بےغیرتی کی بات ہے۔ (آیت) ” حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ “۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ فاسقوں کی مجلس میں شرکت، جس وقت وہ فسق میں نہ مشغول ہوں جائز ہے مگر کراہت کے ساتھ۔ 367 ۔ (کہ آخرت میں ایک کا چھپا ہوا اور ڈھکا ہوا کفر اور دوسرے کا کھلا ہوا کفر دونوں یکساں روشن وظاہر ہوں گے) اسی سے یہ تعلیم بھی نکلتی ہے کہ اصلی جوڑ اور ساتھ کافروں اور منافقوں کا ہے۔ حقیقۃ مناسبت انہی دونوں کے درمیان باہم ہے۔ پاک و صالح انسانوں یعنی مسلمانوں کا ان لوگوں کے ساتھ مجلسی اختلاط ہی کیسا ؟ جامع “ یہاں مضارع یجمع کے معنی میں ہے۔ الاصل جامع بالتنوین محذوف استخفافا فانہ بمعنی یجمع (قرطبی)
Top