Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور کم عقلوں کو اپنا وہ مال نہ دے دو جس کو اللہ نے تمہارے لیے مایہ زندگی بنایا ہے اور اس مال میں سے انہیں کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان سے بھلائی کی بات کہتے رہو،16 ۔
16 ۔ (آیت) ” ولا تؤتوا السفھآء “ سیاق میں سفھاء سے مراد وہ یتیم ہیں جو عمر کے اعتبار سے بالغ ہوچکے ہیں لیکن صرف مال کا سلیقہ وانتظام ان میں پیدا نہیں ہوا ہے۔ اور وہ بےتکان اور بےتحاشا اسراف میں مشغول رہتے ہیں۔ المبذرین اموالھم الذین ینفقونھا فی مالا ینبغی ولا قدرۃ لھم علی اصلاحھا (مدارک) وصف الیتامی بانھم سفھاء باعتبار خفۃ احلامہم و اضطراب اراءھم لما فیھم من الصغر وعدم التدرب (روح) لیس السفہ فی ھولاء صفۃ ذم ولا یفید معنی العصیان للہ تعالیٰ وانھا سموا سفھاء لخفۃ عقولھم ونقصان تمیزھم عن القیام بحفظ المال (جصاص) سفہ وسفاہت سے یہاں کسی معصیت یا جرم اخلاقی کی طرف اشارہ کرنا نہیں بلکہ محض ان لوگوں کی انتظامی ناقابلیت کا اظہار مقصود ہے۔ (آیت) ” اموالکم “۔ مراد اس مال سے ہے جو ملک یتیموں ہی کی ہے لیکن فی الحال سرپرستوں کی ولایت میں ہے۔ ای اموالھم التی فی ایدیکم (جلالین) انما اضاف الاموال الی الاولیاء لانھا فی تصرفھم وتحت ولایتھم (بیضاوی) (آیت) ” لکم قیما “۔ ضمیر مخاطب سے مراد عالم انسانیت ہے یعنی مال جو انسان کے لیے مایہ زندگی ہے، جس کے اوپر انسان کی حیات مادی ومعاشرتی کا دارومدار ہے۔ وبہ قواما لابدانکم ومعاشا لاھلکم واولادکم (مدارک) المراد من القیام مابہ القیام (روح) (آیت) ” لکم “۔ کا مطلب یہ ہے کہ مال اللہ کی بڑی نعمت ہے اور بڑی قدر کی چیز۔ ابھی اسے نافہم یتیموں کے ہاتھ میں نہ دے دو ، کہ اس کی قدر و مرتبہ سے ناواقف ہیں وہ ناقدری سے اسے اڑا دیں گے۔ فقہاء نے آیت سے حفظ مال وعدم تضیع مال کے وجوب پر بھی استدلال کیا ہے۔ وفیہ الدلالۃ علی النھی عن تصییع المال ووجوب حفظہ وتدبیرہ والقیام بہ (جصاص) (آیت) ” وارزقوھم۔۔ معروفا “۔ مطلب یہ ہوا کہ اسی جائداد سے یتیموں کی ضرورتیں پوری کرتے رہو، ان کی راحت و آسائش کے سامان کرتے رہو اور بجائے ان کے ہاتھ میں جائیداد دے دینے کے ان سے تسلی کی باتیں کرتے رہو کہ یہ ملک تمہاری ہی ہے تمہاری ہی ہوا خواہی کا تقاضا ہے کہ اسے ابھی تمہارے ہاتھ میں نہ دیا جائے بلکہ انتظار کیا جائے کہ تم میں پوری طرح سمجھ آجائے، ان کی یہ سفاہت ان کے نان ونفقہ میں حائل نہیں ہوسکتی، اور یہیں سے فقہاء نے نالائق اولاد اور بیوی کے نان ونفقہ کے وجوب پر استدلال کیا ہے :۔ فی ذلک دلیل علی وجوب نفقۃ الاولاد السفہ والزوجات (جصاص) (آیت) ” معروفا “۔ معروف کے اندر ہر وہ چیز داخل ہے جو عملا عقل و شریعت کے نزدیک پسندیدہ ہو۔ کل ما سکنت الیہ النفس لحسنۃ عقلا اوشرعا من قول او عمل فھو معروف (مدارک) ای کلاما تطیب بہ نفوسھم (روح)
Top