Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 73
وَ لَئِنْ اَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللّٰهِ لَیَقُوْلَنَّ كَاَنْ لَّمْ تَكُنْۢ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهٗ مَوَدَّةٌ یّٰلَیْتَنِیْ كُنْتُ مَعَهُمْ فَاَفُوْزَ فَوْزًا عَظِیْمًا
وَلَئِنْ : اور اگر اَصَابَكُمْ : تمہیں پہنچے فَضْلٌ : کوئی فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے لَيَقُوْلَنَّ : تو ضرور کہے گا كَاَنْ : گویا لَّمْ تَكُنْ : نہ تھی بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَهٗ : اور اس کے درمیان مَوَدَّةٌ : کوئی دوستی يّٰلَيْتَنِيْ : اے کاش میں كُنْتُ : میں ہوتا مَعَھُمْ : ان کے ساتھ فَاَفُوْزَ : تو مراد پاتا فَوْزًا : مراد عَظِيْمًا : بڑی
اور اگر تمہیں اللہ کا فضل پیش آتا ہے تو بول اٹھتا ہے (اس بےتعلقی کے ساتھ کہ) گویا تمہارے اور اس کے درمیان کوئی (رشتہ) محبت تھا ہی نہیں کہ کاش ! میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو میں بھی بڑی کامیابی حاصل کرتا،206 ۔
206 ۔ منافقین کی دورنگی اور سیرت منافقانہ کو آشکار کیا ہے کہ مومنین کو جب کوئی مصیبت پیش آتی ہے تو منافقین اپنی بےتعلقی اور علیحدگی پر جھٹ اپنی مسرت وفخر کا اعلان کرنے لگتے ہیں کہ خوب ہوا جو ہم شریک نہ تھے ورنہ ہم بھی اسی بلا میں پھنستے اور مسلمانوں کو جب فتح ونصرت حاصل ہوتی ہے تو رشک کرنے لگتے ہیں کہ کاش ! مال غنیمت ہمارے حصہ میں بھی آتا۔ (آیت) ” فضل من اللہ “۔ مثلا جنگ میں فتح ونصرت۔ (آیت) ” کان۔۔۔ مودۃ “۔ یعنی اس خود غرضی کے ساتھ کہتا ہے جیسے تم مسلمانوں کی خوشی سے اس منافق کو کوئی تعلق ہی نہیں۔ اور اسے تاسف و حسرت صرف اپنی ہی قوت و دولت پر ہے۔ یہیں سے یہ مسئلہ بھی نکل آیا کہ امت اسلامیہ کی خوشی سے خوش ہونا علامات ایمان میں سے ہے۔ (آیت) ” فافوز فوزا عظیما “۔ منافق کی زبان سے اس کے معنی یہ ہوں گے کہ میں بھی خوب دولت حاصل کرتا۔ مال غنیمت میں میرا بھی بڑا سا حصہ ہوتا !
Top