Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 76
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۚ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْۤا اَوْلِیَآءَ الشَّیْطٰنِ١ۚ اِنَّ كَیْدَ الشَّیْطٰنِ كَانَ ضَعِیْفًا۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) يُقَاتِلُوْنَ : وہ لڑتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) يُقَاتِلُوْنَ : وہ لڑتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ الطَّاغُوْتِ : طاغوت (سرکش) فَقَاتِلُوْٓا : سو تم لڑو اَوْلِيَآءَ : دوست (ساتھی) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّ : بیشک كَيْدَ : فریب الشَّيْطٰنِ : شیطان كَانَ : ہے ضَعِيْفًا : کمزور (بودا)
جو ایمان والے ہیں وہ تو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں،214 ۔ اور جو کافر ہیں وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں،215 ۔ سو تم لڑو شیطان کے ساتھیوں سے اور شیطان کی چال تو لچر ہی ہوتی ہے،216 ۔
214 ۔ (اور جیسا کہ خود حق تعالیٰ ہر قسم کی نفسانی آمیزش وآلایش سے منزہ وپاک ہے۔ اللہ والوں کا لشکر بھی کبھی عدوان و طغیان، ظلم وخیانت، مے نوشی وبدکاری کے آلات حرب سے مسلح ہو کر جنگ کر ہی نہیں سکتا) (آیت) ” فی سبیل اللہ “۔ کی قید جو بار بار لگائی جارہی ہے۔ بےمعنی نہیں بہت ہی پر معنی ہے۔ درحقیقت یہ آیت سلسلہ جہاد کی آیتوں میں سے ایک کلیدی آیت ہے اس نے صاف صاف اسلامی جہاد کا فرق دنیا جہان کی تمام جنگوں اور جاہلی محاربات سے واضح کردیا۔ اس نے وضاحت کے ساتھ بتادیا کہ سچا مسلمان جب اپنے ابنائے جنس پر ہتھیار اٹھائے گا تو توسیع ملک کے لئے نہیں، قومی تفوق کے لئے نہیں تجارتی منڈیاں قائم کرنے کو نہیں، دوسرے کو نیچا دکھانے کو نہیں دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنے کو نہیں، رشک وہوس اور جاہ پرستی کے جذبات سے متاثر ہو کر نہیں، بلکہ دنیا کے بلند ترین مقصد، انسانیت کے برترین نصب العین، کلمہ توحید کی برتری اور سربلندی کے لئے، رنگ اور نسل، مرزبوم اور قوم وطن اور قبیلہ کی عزت وحمیت پر کٹ مرنے والے، اسلامی نقطہ نظر کی بلندی کو سمجھ بھی سکتے ہیں ؟ اسلامی جہاد جب تک اسلامی جہاد رہا، کیا وہاں بھی کسی لشکر کیلئے ہزاروں من اور سیکڑوں ٹن شرابوں کی ضرورت پڑی ؟ کیا اس لشکر میں بھی سوزاک اور آتشک کے سیکڑوں ہزاروں مریض سپا ہوں اور افسروں کے لئے امراض خبیثہ کے مخصوص اسپتالوں کا انتظام کرنا پڑا ؟۔۔ مسلمان سپاہی کے سینہ میں تو یہ زندہ ایمان رہتا ہے کہ اسے ایک ایک اقدام کا حساب دینا ہے۔ کبھی ان کا قدم ان گندے راستوں پر پڑسکتا ہے ؟ 215 ۔ طاغوت کے لفظی معنی پر حاشیہ پ 3 میں گزر چکا۔ یہاں اس لفظ کو لا کر طاغوتی، جاہلی، سپاہیوں کے تمرد، خدا فرموشی، نفس پرستی اور تجاوز عن الحدود کے پہلو کو نمایاں کرنا ہے۔ طاغوت کا ترجمہ اگر اس موقع پر ” نفس “ سے کیا جائے تو اردو میں شاید پورا مفہوم ظاہر ہوجائے۔ طاغوت اور نفس کی راہ میں آج بھی جو قومیں وطن پرستی، قوم پروری، ملکی آزادی کے خوشنمالفظ اور لقب کے ساتھ جنگ کرتی رہتی ہیں، ان کی اخلاقی حالت کا جائز ہ لے لیاجائے، شقاوت و سنگدلی، فریب وخیانت، شراب خواری و حرام کاری جس معیار سے چاہے چانچ لیا جائے جانوروں اور درندوں سے بھی کہیں ابتر حالت نکلے گی، یہ سب کرشمہ (آیت) ” فی سبیل الطاغوت “۔ لڑنے کے ہیں۔ محاسبہ آخرت سے بےنیاز ہو کر جنگ کرنے کے ہیں۔ 216 ۔ (سوشیطانی اور طاغوتی قوتوں کو کبھی بھی مستقل اور پائدار فتح حق کے مقابلہ میں نصیب نہیں ہوسکتی) (آیت) ” فقاتلوا اولیآء الشیطن “۔ مسلمانوں کو لڑنے کا حکم مل رہا ہے۔ مگر کس کے مقابلہ میں ؟ شیطانیوں اور طاغویتوں کے مقابلہ میں۔ ان کے مقابلہ میں جو دنیا میں شر و فساد، فسق وشرک ہی کی حکومت پھیلانا چاہتے ہیں۔ (آیت) ” ان کیدالشیطن کان ضیعفا “۔ اس میں مسلمانوں کو ہمت دلائی ہے کہ شیطان کوئی ڈرنے اور سہمنے کی چیز نہیں وہ تم پر حاکم وآمر نہیں۔ تم ذرا ہمت کرجاؤ تو وہ خود تم سے پناہ مانگتا ہوا بھاگے گا۔ اس میں جان تو ہے ہی نہیں، حربی زندگی سے قطع نظر، اخلاق ومعاشرت، معاملات و عبادات کے میدان میں بھی شیطان سے مقابلہ کرلینا کچھ دشوار نہیں۔ ضرورت صرف ہمت کی ہے۔
Top