Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 78
اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍ١ؕ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ١ؕ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ فَمَالِ هٰۤؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ حَدِیْثًا
اَيْنَ مَا : جہاں کہیں تَكُوْنُوْا : تم ہوگے يُدْرِكْكُّمُ : تمہیں پالے گی الْمَوْتُ : موت وَلَوْ كُنْتُمْ : اور اگرچہ تم ہو فِيْ بُرُوْجٍ : برجوں میں مُّشَيَّدَةٍ : مضبوط وَاِنْ : اور اگر تُصِبْھُمْ : انہیں پہنچے حَسَنَةٌ : کوئی بھلائی يَّقُوْلُوْا : وہ کہتے ہیں هٰذِهٖ : یہ مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس (طرف) وَاِنْ : اور اگر تُصِبْھُمْ : انہیں پہنچے سَيِّئَةٌ : کچھ برائی يَّقُوْلُوْا : وہ کہتے ہیں هٰذِهٖ : یہ مِنْ : سے عِنْدِكَ : آپ کی طرف سے قُلْ : کہ دیں كُلٌّ : سب مِّنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس (طرف) فَمَالِ : تو کیا ہوا هٰٓؤُلَآءِ : اس الْقَوْمِ : قوم لَا يَكَادُوْنَ : نہیں لگتے يَفْقَهُوْنَ : کہ سمجھیں حَدِيْثًا : بات
تم جہاں کہیں بھی ہوگے وہیں تمہاری موت آ لے گی خواہ تم مضبوط قلعوں ہی میں ہو،222 ۔ اور اگر انہیں کوئی سکھ پہنچ جاتا ہے تو کہتے ہیں یہ تو خدا کی طرف سے ہے اور اگر انہیں کوئی دکھ پیش آجاتا ہے تو کہتے ہیں یہ آپ کے سبب ہوا،223 ۔ کہہ دیجیے کہ ہر چیز اللہ ہی کی طرف سے ہے سو ان لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ گویا یہ بات ہی نہیں سمجھتے،224 ۔
222 ۔ (توجب موت ایسی یقینی اور بےپناہ شے ہے تو آخرت میں جہاد کے اجر و مراتب بےحساب سے محروم اور خالی ہاتھ کیوں پہنچو ؟ ) 223 ۔ ذکر اب منافقین کا ہورہا ہے۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب تک مسلمانوں کی بات بنی رہتی، یہ لوگ بھی برابر کے شریک رہتے اور کہتے کہ یہ تو عین فضل خداوندی ہے جس میں ہم تم سب یکساں شریک ہیں اور جب بات بگڑ جاتی تو جھٹ سارا الزام مسلمانوں اور ان کے سردار اعظم ﷺ پر رکھ دیتے کہ یہ جو کچھ پیش آیا، سب آپ ہی کی بےتدبیریوں کا نتیجہ ہے۔ (آیت) ” تصبھم حسنۃ “۔ مثلا جنگ میں مسلمانوں کو فتح ہوئی اور اس میں حصہ رسدی ان کو بھی مل گیا۔ (آیت) ” تصبھم سیءۃ “۔ مثلا جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہوئی اور اس کا خمیازہ بحصہ رسدی انہیں بھی اٹھانا پڑا۔ (آیت) ” یقولوا ھذہ من عنداللہ “۔ یعنی یہ کامیابی تو طبعی حالات کی بنا پر تکوینی اسباب سے حاصل ہوگئی۔ اس میں مسلمانوں یا ان کے سرداراعظم کے کسی حسن تدبیر کو کیا دخل۔ منافقین کا یہ (آیت) ” من عنداللہ “۔ کہنا بھی بہ طور حمد نہ تھا۔ بلکہ بہ طور محاورۂ زبان تھا جیسے اردو میں لوگ کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تو تقدیری امور ہیں۔ 224 ۔ یہ تو جہ دلائی ہے منافقین کی حماقت شعاری اور بےغوری کی عادت پر۔ (آیت) ” کل من عند اللہ “۔ یعنی دکھ ہو یا سکھ، رنج ہو یا راحت، سب کا مسبب الاسباب حقیقی اللہ ہی ہے۔ سکھ اور راحت اگر ہے تو یہ براہ راست اس کے فضل وکرم کا ظہور ہے بلاتوسط اعمال۔ اور دکھ یا رنج اگر پیش آرہا ہے تو یہ اس کے عدل کا ثمرہ ہے بہ توسط اعمال۔
Top