Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 82
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ١ؕ وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ : پھر کیا وہ غور نہیں کرتے الْقُرْاٰنَ : قرآن وَلَوْ كَانَ : اور اگر ہوتا مِنْ : سے عِنْدِ : پاس غَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا لَوَجَدُوْا : ضرور پاتے فِيْهِ : اس میں اخْتِلَافًا : اختلاف كَثِيْرًا : بہت
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ (کلام) اللہ کے سوا کسی (اور) کی طرف سے ہوتا تو اس کے اندر بڑا اختلاف پاتے،231 ۔
231 ۔ (جو بشری تالیف وتصنیف کا لازمہ ہے) (آیت) ” اختلافا کثیرا “۔ اس کے مفہوم میں بہت کچھ قیل قال ہوئی ہے۔ کسی نے کہا کہ بیان میں تناقض مراد ہے اور کسی نے کہا کہ تحقیقات میں فرق مراتب اور کسی نے کہا کہ عبارت کی عدم یکسانی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود اختلاف کثیر کا لفظ بڑا وسیع اور جامع ہے۔ معنوی اور ادبی ہر قسم کی بےآہنگی ہر طرح کا جھول جھال اس کے اندر داخل ہے۔ قرآن مجید نے اس آیت سے دنیا کے سامنے اپنی یکتائی کا ایک مستقل چیلنج پیش کردیا کہ ہر طرح ٹھونک بجا کر دیکھ لو، ہر طرح جانچ پڑتال کرلو، مضامین کی پستی وبلندی، عبارت کی ناہمواری، کسی قسم کی کوئی کمی کوئی کوتاہی اس کے اندر نہ پاؤ گے۔ اور یہی دلیل ہے اس کی کہ یہ بشر اور مخلوق کا کلام نہیں۔ قرآن کے جملہ منکرین کے خلاف خواہ وہ کسی وجہ اور کسی پہلو سے ہوں، یہ قیامت تک کے لئے تحدی ہے۔ (آیت) ” افلا یتدبرون القران “۔ قرآن مجید میں تدبر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کا لفظی ومعنوی اعجاز بالکل واضح ہوجائے گا۔ اور اس وضوح سے آپ ﷺ کی رسالت کی جانب سے شبہات کافور ہوجائیں گے (آیت) ” لوکان من عند غیر اللہ “۔ جیسا کہ معاصر ومتاخر منکرین کا خیال تھا اور جیسا کہ آج بعض ” روشن خیال “ مرتدین کا خیال ہے۔ (آیت) ” یتدبرون القران “ سے مبحث قیاس پر بھی دلیل نکل آئی۔ اور ان فرقوں کا بھی رد ہوگیا جو سمجھتے ہیں کہ تفسیر قرآن صرف رسول ﷺ اور امام معصوم کا حق ہے۔
Top