Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 84
فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّ اَشَدُّ تَنْكِیْلًا
فَقَاتِلْ : پس لڑیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ لَا تُكَلَّفُ : مکلف نہیں اِلَّا : مگر نَفْسَكَ : اپنی ذات وَحَرِّضِ : اور آمادہ کریں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) عَسَى : قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يَّكُفَّ : روک دے بَاْسَ : جنگ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) وَاللّٰهُ : اور اللہ اَشَدُّ : سخت ترین بَاْسًا : جنگ وَّاَشَدُّ : سب سے سخت تَنْكِيْلًا : سزا دینا
تو آپ اللہ کی راہ میں قتال کیجئے،236 ۔ آپ پر ذمہ داری نہیں ڈالی جاتی بجز آپ کی اپنی ذات کے،237 ۔ اور آپ مسلمانوں کو بھی آمادہ کرتے رہیے،238 ۔ اور عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا زور روک دے،239 ۔ اور اللہ بڑا ہی زور والا ہے، بڑا ہی سزا والا ہے،240 ۔
236 ۔ (اے پیغمبر ! ) ادھر مضمون جہاد و قتال کا چل رہا تھا۔ درمیان میں دوسرے مضمون ضمنی مضامینوں سے آگئے تھے، اب پھر اس مستقل مضمون کی طرف رجوع ہے۔ 237 ۔ (نہ کہ کسی دوسرے کے عمل کی) مقصد یہ ہے کہ آپ خود جہاد پر آمادہ ہوجائیے خواہ کوئی دوسرا ساتھ دے یا نہ دے۔ آپ پر ذمہ داری کسی دوسرے کے عمل کی نہیں۔ تاریخ کا بیان ہے کہ غزوۂ احد جب شوال میں پیش آچکا تو اس کے معا بعد ذی قعدہ میں آپ مشرکین کے وعدہ کا خیال کرکے بدر کی طرف پھر چلنے پر آمادہ ہوگئے، اس وقت منافقین تو اپنی بےاعتقادی کے سبب سے نکل گئے۔ اور مومنین بھی ساتھ دینے میں بہت پس وپیش کرنے لگے، کچھ تو اس لئے کہ ابھی احد کے زخم بالکل تازہ تھے۔ اور کچھ اس لئے بھی کہ افواہی خبروں پر یقین کربیٹھے تھے۔ مسلمانوں کا سپہ دار اعظم ﷺ یہ رنگ دیکھ، بالکل تن تنہا چل کھڑے ہونے پر آمادہ ہوگیا، کیا ٹھکانا تھا فرض شناسی اور نصرت الہی پر اعتماد کا، قلت و کثرت اور اکائی اور سیکڑوں کی عددی نامناسب کا گویا خیال بھی سامنے نہیں رہا۔ 238 ۔ (جہاد پر) یعنی درجہ ترغیب میں تبلیغ آپ کے فرائض رسالت میں داخل ہے۔ (آیت) ” حرض “۔ تحریض کے معنی ہیں کسی شے کی خوبیاں بہ کثرت بیان کر کر کے اس کی جانب شوق ورغبت دلانا۔ گویا صحیح اور سچا پروپیگنڈہ کرنا۔ التحریض الحث علی الشیء بکثر التنزیین وتسھیل الخطب فیہ (راغب) آیت ان ظالم اور بیدرد پادریوں کا پول کھول رہی ہے جنہوں نے یہ جھوٹ اچھال رکھا ہے کہ (نعوذ باللہ) پیروان محمد ﷺ لوٹ مار کے شوق میں جہاد پر ٹوٹے پڑتے تھے۔ کیا بار بار ترغیب دلانے اور آمادہ کرنے کی ضرورت حریصوں کو ہوا کرتی ہے ؟ 239 ۔ (اور انہیں ان کی زور آوری کے باوجود مغلوب کردے) قرآن مجید کی یہ پیش خبری مستقبل قریب وبعید دونوں میں پوری ہو کر رہی، مخالفین ومعاندین میں سے قریش کا زور تو اسی زمانہ میں ختم ہو کر رہا۔ رہیں دور دراز کی پر قوت، پرشوکت بادشاہتیں اور حکومت سودہ مغلوب ہوتی گئیں۔ (آیت) ” عیسیٰ (علیہ السلام) ۔ اس پر پہلے ہی حاشیہ گزر چکے ہیں کہ اس کا استعمال جب اللہ تعالیٰ کے کسی قول میں ہوتا ہے تو اس کے معنی محض امید یا توقع کے بجائے وعدہ اور یقین کے پیدا ہوجاتے ہیں۔ عسی من اللہ واجب (ابن عباس ؓ اطماع والاطماع من اللہ عزوجل واجب (قرطبی) 240 ۔ (آیت) ” اشد باسا “۔ اس قوت وشدت کا ظہور اسی دنیا میں ہوتا رہتا ہے۔ (آیت) ” اشد تنکیلا “۔ اس صفت سزا دہی کا پورا ظہور آخرت میں ہوگا۔
Top