Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 88
فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْا١ؕ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
فَمَا لَكُمْ : سو کیا ہوا تمہیں فِي الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقین کے بارے میں فِئَتَيْنِ : دو فریق وَاللّٰهُ : اور اللہ اَرْكَسَھُمْ : انہیں الٹ دیا (اوندھا کردیا) بِمَا كَسَبُوْا : اس کے سبب جو انہوں نے کمایا (کیا) اَتُرِيْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَهْدُوْا : کہ راہ پر لاؤ مَنْ : جو۔ جس اَضَلَّ : گمراہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَنْ تَجِدَ : پس تم ہرگز نہ پاؤ گے لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
سو تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقین کے باب میں دو گروہ ہوگئے ہو،246 ۔ درآنحالیکہ اللہ نے ان کے کرتوتوں کے باعث انہیں الٹا پھیر دیا،247 ۔ کیا تم چاہتے ہو کہ انہیں راہ دکھاؤ جنہیں اللہ نے گمراہ کر رکھا ہے، اور جسے اللہ گمراہ کردے ان کے لیے تو ہرگز راہ نہ پائے گا،248 ۔
246 ۔ کہے جارہے ہیں) یہ آیت کس گروہ منافقین کے باب میں ہے ؟ روایتیں اس بارے میں مختلف ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ وہ منافقین ہوں جو عزوۂ احد کے موقع پر عبداللہ بن ابی کی سیادت میں جنگ سے قبل ہی واپس چلے آئے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ وہ گروہ ہو جس نے مدینہ کی چراگاہ پر ڈاکہ ڈالا تھا۔ اس کا بھی امکان ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں، جو دارالحرب مکہ سے دارالہجرت مدینہ میں آئے۔ اپنا اسلام ظاہر کیا۔ مال تجارت لے کر مکہ گئے اور پھر واپس نہ آئے۔ مشرکوں میں مل جل کر وہیں دارالحرب میں رہ پڑے اور سباق قرآنی کی رو سے یہی قول سب سے زیادہ قوی ہے بہرحال وہ کوئی سے بھی ہوں، تھے منافقین ہی، جو مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف شرکت جنگ سے جی چراتے تھے بلکہ ان کے خلاف طرح طرح کی سازشوں اور منصوبوں میں لگے رہتے تھے۔ جیسا کہ قبل والے رکوع میں ذکر آچکا ہے۔ بلکہ بعض تو دارالاسلام کا قیام جو اس وقت عین علامت اسلام تھی، ترک کرکے درالحرب میں کافروں سے جا ملے تھے۔ 247 ۔ (ان کی علانیہ کفر کی جانب) کافر تو حقیقۃ وہ پہلے ہی سے تھے، اب ان کی جسارتیں اتنی بڑھ گئیں کہ علانیہ دشمنان اسلام کے ساتھ ہو کر میدان میں مسلمانوں کے مقابل آگئے (آیت) ” بما کسبوا “۔ یہ ان کا اکتسابی رد عمل تھا کہ باوجود قدرت انہوں نے دارالاسلام کو چھوڑ دیا تھا۔ اس وقت جب کہ ترک اقرار اسلام کی طرح یہ بھی ایک علامت کفر کی تھی من ارتداد ھم ولحوقھم بالمشرکین (مدارک) 248 ۔ یعنی جب انہوں نے گمراہی کا قصد کرلیا تو اللہ کا قانون تکوینی یہ ہے کہ ہر عزم فعل پر فعل پیدا کردیا جاتا ہے۔ اور اسی قاعدہ کے مطابق مشیت تکوینی نے انہیں گمراہی میں ڈال دیا تو اب انہیں نکال کون سکتا ہے ؟ (آیت) ” من اضل اللہ “۔ اللہ کی طرف اس اضلال (گمراہ کرنے) کی نسبت منافقین کے کفر اختیاری کے نتیجہ کے طور پر ہے (آیت) ” اتریدون ‘۔۔ اللہ۔ یعنی کیا تم ان کے قلوب میں زبردستی ایمان ڈال سکوگے جو سرے سے ارادہ ہی ایمان کا نہیں کرتے۔
Top