Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 93
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا
وَمَنْ : اور جو کوئی يَّقْتُلْ : قتل کردے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان کو مُّتَعَمِّدًا : دانستہ (قصداً ) فَجَزَآؤُهٗ : تو اس کی سزا جَهَنَّمُ : جہنم خٰلِدًا : ہمیشہ رہے گا فِيْھَا : اس میں وَغَضِبَ اللّٰهُ : اور اللہ کا غضب عَلَيْهِ : اس پر وَلَعَنَهٗ : اور اس کی لعنت وَاَعَدَّ لَهٗ : اور اس کے لیے تیار کر رکھا ہے عَذَابًا : عذاب عَظِيْمًا : بڑا
اور جو کوئی کسی مومن کو قصدا قتل کردے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ پڑا رہے گا اور اللہ پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس کے لیے عذاب عظیم تیار رکھے گا،266 ۔
266 ۔ اکٹھی اتنی سخت وعیدیں بجز کفر، شرک کے اور کسی جرم کی قرآن مجید میں وارد نہیں اور اسی لئے قتل مومن، اشاعرہ ومعتزلہ سب کے نزدیک بالاتفاق اکبر الکبائر ہے اور یہ ڈرنے اور لرز جانے کی چیز ہے۔ (آیت) ” من یقتل مومنا متعمدا “ قتل عمد کی جو معروف اور براہ راست صورتیں ہیں وہ تو ہیں ہی۔ لیکن عجب نہیں کہ اس وعید کے تحت میں قتل مسلم کی وہ ساری صورتیں بھی آجائیں جو کسی غیر شرعی قانون کے مطابق اور کسی کافرانہ آئین ونظام کے ماتحت کی جاتی ہیں مثلا کسی کافر حکومت کی فوج یا پولیس میں داخل ہو کر اس حکومت کے باغی اور مجرم مسلمان پر گولی چلا دینا یا کسی غیر اسلامی عدالت کی کرسی پر مجسڑیٹ یا جج کی حیثیت سے بیٹھ کر کسی مسلمان کو سزائے موت کا حکم سنا دینا وقس علی ھذا (آیت) ” متعمدا “۔ تعمد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ مقتول کے ایمان ہی کی بناء پر اسے قتل کیا جائے۔ یہ صورت تو صاف کفر کی ہے۔ دوسری یہ کہ قتل مسلم کو جائز سمجھ کر یہ صورت بھی کفر ہی کی ہوئی۔ ای قاصدا قتلہ لایمانہ وھو کفر اوقتلہ مستحلا لقتلہ وھو کفر ایضا (مدارک) (آیت) ” فجزآؤہ “۔ آگے سزا ایسے قاتل کی مذکور ہو رہی ہے جو اس قتل کو جائز سمجھے یا بلا تو بہ مرجائے۔ والجمھور علی انہ مخصوص بمن لم یتب (بیضاوی) وھو عندنا مخصوص لما مستحل لہ (بیضاوی) پھر یہ بھی لحاظ رہے کہ نوعیت جرم کی شدت کے لحاظ سے اصل سزا یہی ہے جو یہاں مذکورہوئی۔ لیکن یہ لازمی نہیں کہ ہر مومن کو بھی انتہائی سزا مل کر ہی رہے اور یہ تفسیر حدیث نبوی سے ماخوذ اور اسی پر مبنی ہے۔ دنیوی قانون میں بھی جرائم کی ایک انتہائی سزا مقرر ہوتی ہے لیکن یہ حاکم کی رائے تمیزی پر ہوگا کہ اس حد کے اندر جتنی سزا مناسب سمجھے دے۔ معناہھی جزاء ہ ان جازاہ ولکنہ ان شاء حدبہ وان شاء غفرلہ بکرمہ فانہ یغفرلمن یشاء (معالم) قال (علیہ السلام) ھی جزاء ہ ان جاز اہ (مدارک) جمہور اہل سنت کا مذہب ہے کہ قاتل اگر مسلم ہے تو اس کی توبہ بھی بالآخر قبول ہوجائے گی۔ اور خلود فی النار کی سزا صرف کافروں اور مشرک کے لئے رہ جائے گی، اس عقیدہ کے دلائل کتاب وسنت سے ماخوذ کلام و عقائد کی کتابوں میں اپنی جگہ پر مبسوط درج ملیں گے۔
Top