Tafseer-e-Majidi - Al-Fath : 15
سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْطَلَقْتُمْ اِلٰى مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوْهَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْكُمْ١ۚ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا كَلٰمَ اللّٰهِ١ؕ قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا كَذٰلِكُمْ قَالَ اللّٰهُ مِنْ قَبْلُ١ۚ فَسَیَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا١ؕ بَلْ كَانُوْا لَا یَفْقَهُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا
سَيَقُوْلُ : عنقریب کہیں گے الْمُخَلَّفُوْنَ : پیچھے بیٹھ رہنے والے اِذَا انْطَلَقْتُمْ : جب تم چلوگے اِلٰى مَغَانِمَ : غنیمتوں کے ساتھ لِتَاْخُذُوْهَا : کم تم انہیں لے لو ذَرُوْنَا : ہمیں چھوڑدو (اجازت دو ) نَتَّبِعْكُمْ ۚ : ہم تمہارے پیچھے چلیں يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ يُّبَدِّلُوْا : کہ وہ بدل ڈالیں كَلٰمَ اللّٰهِ ۭ : اللہ کا فرمودہ قُلْ : فرمادیں لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا : تم ہرگز ہمارے پیچھے نہ آؤ كَذٰلِكُمْ : اسی طرح قَالَ اللّٰهُ : کہا اللہ نے مِنْ قَبْلُ ۚ : اس سے قبل فَسَيَقُوْلُوْنَ : پھر اب وہ کہیں گے بَلْ : بلکہ تَحْسُدُوْنَنَا ۭ : تم حسد کرتے ہو ہم سے بَلْ : بلکہ، جبکہ كَانُوْا لَا يَفْقَهُوْنَ : وہ سمجھتے نہیں ہیں اِلَّا قَلِيْلًا : مگر تھوڑا
یہ پیچھے رہ جانے والے عنقریب جب تم غنیمتیں لینے چلو گے تو کہیں گے کہ ہم کو بھی اجازت دو ہم تمہارے ساتھ ہولیں،16۔ چاہتے ہیں کہ اللہ کے حکم کو بدل ڈالیں آپ کہہ دیجئے تم ہرگز ہم لوگوں کے ساتھ نہیں چل سکتے، اللہ نے پہلے یوں ہی فرمادیا ہے،17۔ اس پر یہ لوگ کہیں گے کہ نہیں بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو اصل یہ ہے کہ یہ لوگ بہت ہی کم بات سمجھتے ہیں،18۔
16۔ صلح حدیبیہ کے کچھ ہی روز بعد معرکہ خبیر پیش آیا۔ جس میں مسلمانوں نے دولت مندو پر قوت یہودیوں پر فتح عظیم پائی، آیت میں اسی پیش آنے والے واقعہ کا ذکر بصورت پیش خبری ہے۔ (آیت) ” سیقول المخلفون “۔ اخلاص منافقین کے اس قول میں بھی نہ ہوگا۔ اب جو ساتھ چلنے کو کہیں گے تو محض مال غنیمت کی حرص وطمع میں۔ (آیت) ”’ اذا .... لتاخذوھا “۔ جنگ ابھی نہ ہوئی ہے، نہ باسباب وقرائن ظاہر ابھی شروع ہونے کو ہے۔ قرآن مجید دعوی وتحدی کے ساتھ نہ صرف وقوع جنگ کی پیش گوئی کردیتا ہے، بلکہ نتیجہ جنگ یعنی مسلمانوں کی فتح اور یہود کی مغلوبیت وہزیمت کا بھی اتنے قبل سے اعلان کئے جارہا ہے ! بجز عالم الغیب والشہادۃ کے کوئی بھی ایسی پیشگوئیوں کی جرأت کرسکتا ہے ؟ (آیت) ” اذا انطلقتم “۔ واقعہ مستقبل کا ذکر صیغہ ماضی سے عربی میں اسی وقت آتا ہے، جب اس واقعہ آئندہ کا وقوع یا پیشگوئی کا تحقق بالکل قطعی اور یقینی ہو۔ (آیت) ” الی مغانم لتاخذوھا “۔ اس میں اشارہ منافقین کی حرص وطمع کی طرف بھی آگیا۔ (آیت) ” ذرونا نتبعکم “۔ منافقین کو اب شرکت جہاد سے ممانعت کردی گئی تھی، یہ درخواست اسی حکم امتناعی کی منسوخی کے لئے ہورہی ہے۔ (آیت) ” انطلقتم۔ نتبعکم “۔ تم اور کم کی ضمیریں (جمع مخاطب کی) مسلمانوں کیلئے ہیں۔ 17۔ یہ جواب رسول اللہ ﷺ کی زبان سے ادا کرایا جارہا ہے۔ (آیت) ” کلم اللہ “۔ یعنی حق تعالیٰ کا یہ حکم کہ خبیر بجز، اہل حدیبیہ کے اور کوئی نہ جائے۔ (آیت) ” کلم “۔ کی دوسری تفسیر یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اسے حق تعالیٰ کے وعدہ تکوینی کے معنی میں لیا جائے۔ اس صورت میں مراد یہ ہوگی کہ اللہ نے مومنین مخلصین سے یہ جو وعدۂ کر رکھا ہے کہ خیبر کی غنیمت صرف تمہیں کو ملے گی اسے یہ منافقین خود شریک ہو کر جھٹلا دینا چاہتے ہیں۔ (آیت) ” لن تتبعونا “۔ لن یہاں مطلق تابید کے لئے نہیں، بلکہ صرف غزوۂ خیبرتک کے لئے محدود ہے۔ (آیت) ” کذلکم ..... قبل یعنی ہم تمہاری درخواست ہرگز منظور نہیں کرسکتے۔ ہم کو پہلے ہی سے یہ حکم مل چکا ہے کہ ان کو مت ساتھ لے جانا دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ تم زبان سے کچھ بھی کہو، تم بہرحال ہمارے ساتھ جانے پر قادر نہ ہوسکوگے وعدۂ الہی یہی ہے اور وہ غلط نہیں ہوسکتا۔ 18۔ منافقوں کی کم فہمی بلکہ نافہمی اسی سے ظاہر ہے کہ مومنین صادقین و مخلصین جن کے ہاں حسد ونفسانیت کا گزر نہیں، ان کے صحیح اور واقعی جواب کو حسد ونفسانیت پر محمول کررہے ہیں۔ (آیت) ” فسیقولون بل تحسدوننا “۔ یعنی یہ منافقین کہیں گے کہ یہ کوئی حکم خداوندی نہیں۔ بلکہ تم ہی یہ نہیں چاہتے ہو کہ ہم اس نفع میں شریک ہوں، اس لئے ہم سے یہ بہانے تراش رہے ہو، انسان اپنے ہی پیمانے سے دوسروں کو ناپتا ہے۔ منافقین نے اپنے ہی نفس پر قیاس کرکے یہ بات مسلمانوں کے حق میں کہہ دی۔ (آیت) ” بل ..... قلیلا۔ منافقین اور وہ بھی دیہات عرب کے۔ سمجھ ہی کیا سکتے تھے کہ مجاہد کا ظرف کتنا بلند ہوتا ہے۔
Top