Tafseer-e-Majidi - Al-Fath : 18
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ
لَقَدْ : تحقیق رَضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے اِذْ : جب يُبَايِعُوْنَكَ : وہ آپ سے بیعت کررہے تھے تَحْتَ الشَّجَرَةِ : درخت کے نیچے فَعَلِمَ : سو اس نے معلوم کرلیا مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ : جو ان کے دلوں میں فَاَنْزَلَ : تو اس نے اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَثَابَهُمْ : اور بدلہ میں دی انہیں فَتْحًا : ایک فتح قَرِيْبًا : قریب
بیشک اللہ خوش ہوا ان مسلمانوں سے جب کہ وہ آپ سے بیعت کررہے تھے درخت کے نیچے، اور اللہ کو معلوم تھا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا، سو اللہ نے ان میں اطمینان پیدا کردیا اور ان کو ایک لگتے ہاتھ فتح بھی دے دی،22۔
22۔ اشارہ فتح خبیر کی جانب ہے۔ خیبر، مدینہ سے سومیل کے فاصلہ پر، شام کے راستہ پر یہود کی ایک مستحکم گڑھی تھی، اور یہیں دولت مند پر قوت یہود کی ایک بستی بھی آباد تھی، اس جنگ میں کل 19 مسلمان شہید ہوئے، یہود کے 93 آدمی کام آئے۔ اور زمین حجاز پر ان کا سب سے زیادہ مضبوط قلعہ مسخر ہوگیا۔ (آیت) ” اذ یبایعونک “۔ اس بیعت کا ذکر ہے جو آپ ﷺ نے مقام حدیبیہ میں مسلمانوں سے عزم جہاد پر حضرت عثمان ؓ کی خبرشہادت سن کرلی تھی، اسی بیعت کا مشہور نام بیعت الرضوان ہے۔ (آیت) ” لقد ..... ال مومنین “۔ یہ ان خوش نصیب مومنین کیلئے مستقل پروانہ رحمت ہے ... اللہ اللہ، محض جہاد پر اصل جہاد کا اجر دے دیا۔ آیت ان اصحاب بیعت کی صحت ایمان پر ایک شہادت نصی ہے۔ فیہ الدلالۃ علی صحۃ ایمان الذین بایعوا النبی ﷺ بیعۃ الرضوان بالحدیبیۃ (جصاص) فدل علی انہم کانوا مومنین علی الحقیقہ اولیاء اللہ اذ غیر جائز ان غیر اللہ یرضاہ عن قوم باعیانھم الا وباطنھم کظاھرھم فی صیحۃ البصیرۃ وصدق الایمان (جصاص) (آیت) ” تحت الشجرۃ “۔ یہ درخت کی کر (سمرہ) کا تھا ... بعض روایتوں میں (اور یہ روایتیں کچھ زیادہ قومی نہیں) آتا ہے کہ یہ درخت حضرت عمر ؓ کے زمانہ تک قائم و سلامت رہا۔ مگر آپ ؓ نے جب دیکھا کہ لوگوں کا حسن اعتقاد اس درخت کے حدود سے متجاوز ہو کر ضعیف الاعتقادی اور رہم پرستی تک پہنچا جاتا ہے، تو آپ ؓ نے اسے کٹواڈالا۔ (آیت) ” ما فی قلوبھم “۔ ان مومنین صادقین کے دلوں کا جذبات اخلاص ووفاداری سے لبریز ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ ممکن ہے اپنی بےسروسامانی پر نظر کرکے قوت طبیعی میں بھی کسی درجہ ضعف ہو۔ (آیت) ” فانزل السکینۃ علیھم “۔ اور اس نزول سکینت کا نتیجہ یہ ہوا ہے ان لوگوں کو حکم الہی کے ماننے میں ذرا پس وپیش نہ رہا۔ فقہاء نے اس سے یہ استنباط بھی کیا ہے کہ نیت اگر صادق ہے تو توفیق الہی ضرور دستگیری کرے گی، وھذا یدل علی ان التوفیق یصحب صدق النیۃ (جصاص) (آیت) ” فعلم مافی قلوبھم “۔ اس سے ان اصحاب بیعت کے صدق ایمان وصدق نیت کی اور زیادہ تاکید اور تقویت ہوگئی۔ اخبرانہ علم من قلوبھم صحۃ البصیرۃ وصدق النیۃ وان ماابطنوہ مثل ما اظھروہ (جصاص)
Top