Tafseer-e-Majidi - Al-Fath : 20
وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ وَ كَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْكُمْ١ۚ وَ لِتَكُوْنَ اٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَ یَهْدِیَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
وَعَدَكُمُ : وعدہ کیا تم سے اللّٰهُ : اللہ نے مَغَانِمَ كَثِيْرَةً : غنیمتیں کثرت سے تَاْخُذُوْنَهَا : تم لوگے انہیں فَعَجَّلَ : تو جلددیدی اس نے تمہیں لَكُمْ : تمہیں هٰذِهٖ : یہ وَكَفَّ : اور روک دئیے اَيْدِيَ النَّاسِ : ہاتھ لوگوں کے عَنْكُمْ ۚ : تم سے وَلِتَكُوْنَ اٰيَةً : اور تاکہ ہو ایک نشانی لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کیلئے وَيَهْدِيَكُمْ : اور وہ ہدایت دے تمہیں صِرَاطًا : ایک راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
اللہ نے تم سے (اور بھی) بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا ہے کہ تم انہیں لوگے سو (ان میں سے) یہ (فتح) تمہیں سردست دے دی ہے (غیر) لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے اور تاکہ یہ اہل ایمان کے لئے ایک نمونہ ہوجائے، اور تاکہ تم کو ایک سیدھی راہ پر ڈال دے،24۔
24۔ (اور وہ سیدھی راہ اللہ کے وعدوں پر وثوق واعتماد کی ہے) (آیت) ” وعدکم ..... تاخذونھا “۔ یہ غنائم کثیر کے وعدے پہلے خود رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اور پھر خلافت راشدہ کے دور میں بار بار اور کثرت سے پورے ہوتے رہے۔ خطاب یہاں عام امت سے ہے۔ (آیت) ” فعجل .... عنکم “۔ یعنی ان اغیار واشرار پر تمہارا رعب بیٹھ گیا اور انہیں ہمت ہی تم سے زیادہ مقابلہ کی نہ پڑی۔ (آیت) ” الناس “ کا اشارہ خصوصی یہود خیبر اور ان کے حلیفوں کی جانب ہے۔ یعنی ایدی اھل خیبر وحلفاءھم (مدارک) (آیت) ” ھذہ “۔ یعنی یہی فتح خیبر اور اس کی غنیمتیں “۔ یعنی مغانم خیبر (مدارک) (آیت) ” لتکون ایۃ لل مومنین “۔ یعنی مومنین کا ایمان اور مضبوط ہوگیا ..... یہ ایک خالص علمی واعتقادی نفع ہوا۔ (آیت) ” ویھدیکم صراطا مستقیما “۔ یعنی اللہ کے وعدوں پر اعتماد اور قوی ہوگیا ..... یہ ایک خالص عملی واخلاقی نفع ہوا گویا علاوہ مادی ومالی نفع کے یہ دینی نفع بھی دو دو حاصل ہو کر رے۔
Top