Tafseer-e-Majidi - Al-Hujuraat : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے اِنْ : اگر جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس فَاسِقٌۢ : کوئی فاسق بدکردار بِنَبَاٍ : خبرلے کر فَتَبَيَّنُوْٓا : تو خوب تحقیق کرلیاکرو اَنْ تُصِيْبُوْا : کہیں تم ضرر پہنچاؤ قَوْمًۢا : کسی قوم کو بِجَهَالَةٍ : نادانی سے فَتُصْبِحُوْا : پھر ہو عَلٰي : پر مَا : جو فَعَلْتُمْ : تم نے کیا (اپنا کیا) نٰدِمِيْنَ : نادم
اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تم تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ کہیں تم نادانی سے کسی قوم کو ضرر پہنچا دو (اور) پھر اپنے کئے پر پچھتاؤ،7۔
7۔ (تو ایسے امکانات جب رسول اللہ ﷺ کی خود حیات مبارک میں تھے تو اب تو ظاہر ہے کہ یہ احتمالات بہت زائد ہیں) (آیت) ” بنبا “ نباء سے اس سیاق میں مراد ایسی چیز ہے جس میں کسی کی شکایت نکلتی ہو، اور اس پر عمل کرنے سے کسی کا ضرر لازم آتا ہو۔ (آیت) ” فتبینوا “۔ یعنی بلاتحقیق عمل نہ کربیٹھو، بلکہ عمل سے قبل خوب چھان بین کرلو۔ فقہاء مفسرین نے لکھا ہے کہ اس اجمالی حکم تحقیق کے اندر چند تفصیلات ہیں :۔ (1) تحقیق واجب۔ مثلا خلیفہ جب یہ سنے کہ فلاں شخص مرتد ہورہا ہے یا فلاں شخص قتل و غارت کا اقدام کررہا ہے وقس علی ہذا۔ ایسے موقع پر تحقیق نہ کرنے سے کسی واجب کا فوت لازم آتا ہے۔ (2) تحقیق جائز۔ مثلا کسی نے یہ سنا کہ فلاں شخص مجھے مالی یا جسمانی ضرر پہنچانا چاہتا ہے، دفع مضرت کے لئے ایسے موقع پر یہ تحقیق بالکل جائز ہے۔ (3) تحقیق حرام۔..... مثلا کسی کے لیے یہ سنا کہ وہ خفیہ شراب پیتا ہے ایسے موقع پر تحقیق نہ کرنے سے اپنا کوئی ضرر نہیں اور تحقیق کرنے سے اس شخص کی رسوائی وفضیحت ہوتی ہے۔
Top