Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 10
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا : اور جن لوگوں نے کفر کیا وَكَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِاٰيٰتِنَآ : ہماری آیتیں اُولٰٓئِكَ : یہی اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : جہنم والے
اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری نشانیوں کو جھٹلایا (سو) ایسے لوگ دوزخ والے ہیں،51 ۔
51 ۔ (آیت) ” اصحب الجحیم “۔ صاحب میں مفہوم عارضی وہنگامی اجتماع کا نہیں، بلکہ مستقل اور طویل تعلق کا پایا جاتا ہے۔ اس لیے کافروں کو اصحاب دوزخ کہنے کے معنی یہ ہوئے کہ وہ گویا دوزخ ہی کے لیے بنے ہیں یا دوزخ انہی کے لیے بنی ہے اگر صرف وعید کی صورت ہوتی تو کچھ امیدنجات کی باقی بھی رہ جاتی۔ الصاحب الملازم ولا یقال فی العرف الالمن کثرت ملازمتہ (راغب) والمصاحبۃ والاصطحاب ابلغ من الاجتماع لاجل ان المصاحبۃ تقتضی طول لبثہ (راغب) ای ملا بسوالنار الشدیدۃ التاجج ملابسۃ مؤبدۃ (روح) فخر المفسرین فخر رازی (رح) نے حسب معمول اس موقع پر بھی ژرف نگاہی سے کام لیا ہے۔ اور دوسرے بھی ان کی راہ پر چلے ہیں :۔ یفید الحصر والمصاحبۃ تقتضی الملازمۃ کما یقال اصحاب الصحراء ای الملازمون لھا (کبیر) فھم دائمون فی عذاب اذ حتم لھم انہم اصحاب الجحیم ولم یات بصورۃ الوعید فکان یکون الرجاء لھم فی ذلک (بحر) لم یؤت بالجملۃ فی سیاق الوعید قطعا لرجاءھم (روح) اور آیت ہی سے یہ نکتہ بھی خوب نکالا ہے کہ خلود جہنم کفار ہی کے لیے ہے۔ فھذہ الایۃ نص قاطع فی ان الخلود لیس الالکفار (کبیر)
Top