Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 100
قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : کہدیجئے لَّا يَسْتَوِي : برابر نہیں الْخَبِيْثُ : ناپاک وَالطَّيِّبُ : اور پاک وَلَوْ : خواہ اَعْجَبَكَ : تمہیں اچھی لگے كَثْرَةُ : کثرت الْخَبِيْثِ : ناپاک فَاتَّقُوا : سو ڈرو اللّٰهَ : اللہ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
آپ کہہ دیجئے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں ہوسکتے۔ گوتجھے ناپاک کی کثرت حیرت میں ڈالتی ہو،311 ۔ سو اے عقل والو ! اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ (پوری) فلاح پاجاؤ،312 ۔
311 ۔ (اے مخاطب) (آیت) ”(الخبیث) نافرمان یا نافر مانی، ذات وصفات سب کے لئے جامع۔ والصحیح ان اللفظ عام فی جمیع الامور یتصور فی المکاسب والاعمال والناس والمعارف من العلوم وغیرھا (قرطبی) (آیت) ” الطیب “۔ فرمان بردار یا فرمان برداری۔ (آیت) ” لایستوی “۔ اس لئے کہ ایک اللہ کے ہاں محبوب ومحمود ہے اور دوسری مبغوض ومردود۔ امام رازی (رح) نے فرمایا ہے کہ عالم روحانیت میں جو چیزیں گندی یا خبیث ہیں، وہ عالم جسمانیات میں بڑی مقداروالی اور بڑی لذت والی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ان کی یہ ظاہری تعداد اور لذت دائمی اور سرمدی لذتوں سے ہمیشہ کے لئے محروم کردینے والی ہے، اس لئے ان کا اور ان کا کوئی مقابلہ ہی کیا ؟ یعنی ان الذی یکون خبیثا فی عالم الروحانیات قد یکون طیبا فی عالم الجسمانیات ویکون کثیر المقدار ووعظیم اللذۃ الا انہ مع کثرۃ مقدارہ ولذاذۃ متناولہ وقرب وجدانہ سبب للبحر مان من السعادات الباقیۃ الابدیۃ السرمدیۃ (کبیر) (آیت) ” ولواعجبک “۔ یعنی اس پر حیرت نہ کرو کہ جب نافرمان اور نافرمانی اس قدر مبغوض ہیں تو پھر ان کی کثرت وفراوانی کیوں ہے ؟ یہ ترقی یقیناً دلیل مقبولیت نہیں، اس کی بنا دوسری ہی تکوینی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ اعجابہ لہ ان صار عندہ عجبامما یشاھدہ من کثرۃ الکفار والمال الحرام وقلۃ المومنین والمال الحلال (قرطبی) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اہل حقائق کے مقابلہ میں اہل رسول کی کثرت سے دھوکا نہ کھانا چاہیے (آیت) ” ولو اعجبک “۔ کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ” گو تجھے بھلی لگے “۔ ای وان سرک ایھا الناظر (روح) آج دنیا میں بدی کی کثرت بھی ہے اور ظاہری خوشمنائی بھی، اور ایسا ہی کم وبیش ہر زمانے میں رہا ہے۔ 312 ۔ (دنیا اور آخرت دونوں میں) (آیت) ” فاتقوا اللہ “۔ یعنی راہ ہدایت اور پاکیزگی ہی کی راہ اختیار کرو اور بدی اور گندگی کی کثرت یا ظاہری خوشنمائی سے متاثر ہو کر ادھر نہ جھک جاؤ۔ ای اثروا الطیب وان قل علی الخبیث وان کثر ، (کشاف) (آیت) ” تفلحون “۔ کو ” فاتقوا “ پر مرتب کرکے گویا یہ بتادیا کہ فلاح کی بنیاد تقوی الہی ہی پر ہے۔ خطاب اولی الالباب سے کرکے ادھر اشارہ کردیا کہ عین عقل وبصیرت کا تقاضا یہ ہے کہ احکام الہی کی خلاف ورزی سے بچا جائے اور راہ تقوی اختیار کی جائے۔ اولی الالباب۔ لب کے معنی عقل خالص کے ہیں جو ہر طرح کی آمیزش و کدورت سے پاک ہو۔ اللب العقل الخالص من الشوائب (راغب) عقل انسان کے پاس اللہ ہی کی بخشی ہوئی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ قرآن مجید نے عقل کو دبایا نہیں، بلکہ صحیح حدود کے اندر عقل سلیم سے کام لینے پر تاکید کی ہے۔
Top