Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 101
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَسْئَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے لَا تَسْئَلُوْا : نہ پوچھو عَنْ : سے۔ متعلق اَشْيَآءَ : چیزیں اِنْ تُبْدَ : جو ظاہر کی جائیں لَكُمْ : تمہارے لیے تَسُؤْكُمْ : تمہیں بری لگیں وَاِنْ : اور اگر تَسْئَلُوْا : تم پوچھوگے عَنْهَا : ان کے متعلق حِيْنَ : جب يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ : نازل کیا جارہا ہے قرآن تُبْدَ لَكُمْ : ظاہر کردی جائینگی تمہارے لیے عَفَا اللّٰهُ : اللہ نے درگزر کی عَنْهَا : اس سے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
اے ایمان والو ! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں،313 ۔ اور اگر تم انہیں دریافت کرتے رہو گے، اس زمانہ میں جب کہ قرآن اتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی،314 ۔ اللہ نے ان کی بات درگزر کی، اور اللہ بڑا مغفرت والا ہے بڑا حلم والا ہے،315 ۔
313 ۔ ممانعت ایسے سوالات سے ہورہی ہے جو سرتاسر فضول اور لایعنی ہوں مثلا لوگوں کے جزئیات زندگی کی بابت سوالات کرتے رہنا۔ سوال دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کوئی معاشی یا معادی ضرورت واقعی پیش آجائے یا اس کے پیش آجانے کا احتمال قوی ہو اور صاحب شریعت سے ادب واحترام کے ساتھ اس کی بابت پوچھ لیا جائے، دوسرے یہ کہ غرض ومقصد صحیح کچھ بھی نہ ہو اور دور دور کے احتمالات پیدا کرکے سوال محض سوال کرنے کی نیت سے کیا جائے تشقیقات اپنے دل سے گڑھے جائیں اور گویا رسول کا امتحان لینے کو سوالات اس کے سامنے پیش کئے جائیں۔ یہاں ذکر اسی آخری قسم کا ہے اور اسی سوال بازی کو ممنوع قرار دیا جارہا ہے۔ (آیت) ان تبدلکم تسؤکم ناگوار ہونے کی صورتیں مثلا یہ کہ تمہارے کسی چھپانے والے واقعہ کی پردہ دری ہوجائے اور تمہیں تفضیح ورسوائی کا سامنا کرنا پڑے یا ایسے احکام نازل ہوجائیں جن کی تعمیل تم پر شاق گزرے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت انس ؓ صحابی سے روایت آئی ہے کہ ایک شخص نے آکر رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ اچھا یہ بتائیے کہ میرا باپ کون تھا ؟ آپ نے فرمایا کہ فلاں شخص، اسی طرح ترمذی وغیرہ میں حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ جب فرضیت حج کی آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سوال کرنا شروع کردیا کہ یہ ہر سال فرض ہے ؟ یہ دو نمونہ ہیں اس قسم کے بیجا سوالات کے جن کے خلاف یہاں تنبیہ کی جارہی ہے۔ ” احکام میں جیسا یہ سوال بوجہ افراط ممنوع ہے، واقعات میں یہ سوال موجب تفریط فی الاطاعت والادب بھی ہے۔ چناچہ بخاری میں یہ بھی ہے کہ استہزاء پوچھتے تھے، پس آیت سب اقسام سوال کو اور سب اقسام جواب کو شامل ہے۔ گوعلت نہی کی کہیں افراط ہوگی، اور ناگواری جواب کا احتمال کہیں تحریم سے ہوگا کہیں رسوائی سے کہیں زجر سے اور بعد نزول وحی کے ایسے سوالات سے نہی کی علت اضاعت وقت اور مجیب کو ضیق میں ڈالنا ہے “ (تھانوی (رح) روی مسلم عن المغیرۃ بن شعبۃ عن رسول اللہ ﷺ قال ان اللہ کرہ لکم ثلاثا قیل وقال وکثرۃ السؤال واضاعۃ المال وقال کثیر من العلماء المراد بقولہ کثرۃ السؤال التکثیر من السؤال فی المسائل الفقھیۃ تنطعا وتکلفا فی مالم ینزل والاغلوطات وتشقیق المولدات وقد کان السلف یکرھون ذلک یرونہ من التکلیف (قرطبی) 314 ۔ تو ایسے ہی سوالات جن میں یہ احتمالات ہوں ممنوع قرار دیئے جاتے ہیں۔ ھذاتادیب من اللہ لعبادہ المومنین ونھی لھم عن ان یسالوا عن اشیاء مما لا فائدۃ لھم فی السؤال والتنقیب عنھا لانھا ان اظھرت لھم تلک الامور بھا ساء تھم وشق علیھم سماعھا (ابن کثیر) 315 ۔ (اس لیے حکم کی خلاف ورزی پر گرفت اگر فوری نہیں ہوئی تو اس سے مطمئن اور بےخوف نہ ہوجاؤ) (آیت) ” عنہا “۔ یعنی ان سوالات کے بارے میں جو تم اب تک کرچکے، ای عن المسئلۃ التی سلف منھم (قرطبی) ای عما سلفکم من مسائلکم (کبیر) (آیت) ” غفور “۔ اس صفت غفر کا تقاضا ہے کہ اس نے ماضی کو معاف کردیا۔
Top