Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 105
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ١ۚ لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ١ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے عَلَيْكُمْ : تم پر اَنْفُسَكُمْ : اپنی جانیں لَا يَضُرُّكُمْ : نہ نقصان پہنچائے گا مَّنْ : جو ضَلَّ : گمراہ ہوا اِذَا : جب اهْتَدَيْتُمْ : ہدایت پر ہو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا ہے جَمِيْعًا : سب فَيُنَبِّئُكُمْ : پھر وہ تمہیں جتلا دے گا بِمَا : جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اے ایمان والو ! تم اپنی ہی فکر میں لگے رہو کوئی بھی گمراہ ہوجائے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں جب کہ تم راہ پر چل رہے ہوف 322 ۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کی واپسی ہے وہ تمہیں جتلا دے گا جو کچھ کہ تم کرتے رہے تھے،323 ۔
322 ۔ حکم افراد کو ہے کہ دوسروں کی فکر میں اتنا زیادہ کیوں گھلے جاتے ہو۔ مقدم فکر اپنی ہے۔ اپنے مطالبات دین ادا کئے جاؤ تم پر دوسروں کی ذمہ داری نہیں تم سے پرسش تمہارے ہی احوال کی ہوگی، آیت میں ایک زبردست اصول یعنی شخصی ذمہ داری کا اثبات ہے۔ اور ان لوگوں کا ابطال ہے جو انفرادیت کو اجتماعیت میں گم رکھنا چاہتے ہیں۔ (آیت) ” علیکم انفسکم “۔ یعنی اپنے نفس کی نگرانی اپنے اوپر لازم کرلو۔ معناہ احفظوا انفسکم من المعاصی (قرطبی) (آیت) ” علیکم “۔ محاورہ میں جب صیغہ مخاطب میں آتا ہے تو اس کے معنی لازم پکڑ لینے کے ہوتے ہیں۔ صیغہ غائب وغیرہ میں نہیں آتا۔ تقول علیک زیدا بمعنی الزم زیدا ولا یجوز علیہ زیدا بل انما یجری ھذا فی المخاطبۃ (قرطبی) دوسروں کی بھی بہ قدر وسعت واستطاعت اصلاح شخصی مطالبات دین ہی میں شامل ہے۔ ان کے منافی نہیں۔ مقصود دوسروں کی اصلاح کے کام سے روکنا نہیں۔ صرف اس کے مبالغہ آمیز تخیل میں اعتدال پیدا کرنا ہے۔ مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کو اچھی بری بات بتاؤ نہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ دوسروں کی عیب چینی اور کھوج میں نہ پڑے رہو۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر تو بجائے خود ایک انفرادی فریضہ ہے اس کا سقوط مقصود نہیں۔ قال ابن خویز منداد تضمنت الایۃ اشتغال الانسان بخاصۃ نفسہ وتر کہ التعرض لمعایب الناس والبحث عن احوالھم بانھم لایسالون عن حالہ فلایسال عن حالھم (قرطبی) ومن الاھتداء اتباع امر اللہ فی انفسنا وفی غیرنا فلادلالۃ فیھا اذا علی سقوط فرض الامر بالمعروف والنھی عن المنکر (جصاص) اخبر ابوبکر ؓ ان ھذہ الایۃ لا رخصۃ فیھا فی ترک الامر بالمعروف والنھی عن المنکر وانہ لا یضر ضلال من ضل اذا اھتدی ھو بالقیام بفرض اللہ من الامر بالمعروف والنھی عن المنکر (جصاص) آیت کا ایک محمل یہ بھی ہے کہ انسان جب یہ دیکھ لے کہ وعظ وپند مطلق کارگر نہیں ہوتا بلکہ الٹا اس پر اور مضحکہ ہوتا ہے تو ایسے موقع پر چاہیے کہ سکوت سے کام لے اور بس اپنے ہی ذاتی عمل کی فکر میں لگا رہے۔ قیل الایۃ فی اھل الاھواء الذین لاینفعھم الوعظ فاذا علمت من قوم انھم لایقبلون بل یستخفون ویظھرون فاسکت منھم (قرطبی) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ یہی طریقہ ہے عارفین سالکین کا وہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کردینے کے بعد پھر کسی کے زیادہ درپے نہیں ہوتے۔ 323 ۔ (کہ حشر ہی اصلی وقت ومقام نتائج کے ظہور تام کا ہوگا)
Top