Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 109
یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ
يَوْمَ : دن يَجْمَعُ : جمع کرے گا اللّٰهُ : اللہ الرُّسُلَ : رسول (جمع) فَيَقُوْلُ : پھر کہے گا مَاذَآ : کیا اُجِبْتُمْ : تمہیں جواب ملا قَالُوْا : وہ کہیں گے لَا عِلْمَ : نہیں خبر لَنَا : ہمیں اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو عَلَّامُ : جاننے والا الْغُيُوْبِ : چھپی باتیں
(اس دن سے ڈرو) جس دن اللہ پیغمبروں کو جمع کرے گا،333 ۔ پھر ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا تھا،334 ۔ وہ عرض کریں گے کہ ہم کو علم نہیں چھپی ہوئی باتوں کو خوب جاننے وال تو بس تو ہی ہے،335 ۔
333 ۔ (مع ان کی امتوں کے) ذکر قیامت کے موقع کا ہے تقدیر کلام یوں ہے واتقوا یوم یجمع اللہ الرسل۔ بعض نے احذروا اور بعض نے اذکروا فرض کیا ہے، مقصود ہر صورت میں تخویف وتہدید ہے۔ قیل التقدیر واتقوا یوم یجمع اللہ الرسل عن الزجاج وقیل التقدیر اذکروا اواحذروایوم القیمۃ حین یجمع اللہ الرسل والمعنی متقارب والمراد التخویف والتھدید (قرطبی) 334 ۔ (ان امیتوں کی طرف سے) یعنی تمہاری دعوت آیا قبول کی یارد کی ؟ ماذا یہاں بماذا کے مرادف ہے۔ بای شیء اجبتم (بیضاوی) قیل التقدیر بما ذا اجبتم “۔ (روح) امت کے نافرمانوں کے مواجہہ میں یہ مکالمہ بجائے خود ایک عذاب ان نافرمانوں اور سرکشوں کے حق میں ہوگا۔ انہ ارادان یفضحھم علی رء وس الاشھاد لیکون ذلک نوعا من العقوبۃ لھم (قرطبی) امام رازی (رح) نے سچ کہا ہے کہ قرآن مجید کا ایک عام اسلوب بیان یہ ہے کہ احکام وشرائع کے مفصل بیان کے معا بعد یا تو ذکر صفات الہی کا شروع کردیا جاتا ہے یا حالات انبیاء کا، یا احوال قیامت کا، اور مقصود ان سب صورتوں میں ان احکام کی تعمیل کے لئے قلب کو زیادہ آمادہ کردینا ہوتا ہے چناچہ یہاں بھی یہی صورت ہے۔ اعلم ان عادۃ اللہ تعالیٰ جاریۃ فی ھذا الکتاب الکریم انہ اذا ذکرانواعا کثیرۃ من الشرائع والتکالیف والاحکام اتبعھا اما بالالھیات واما بشرح احوال الانبیاء او بشرح احوال القیمۃ لیصیر ذلک موکدا لما تقدم ذکرہ من التکالیف والشرائع (کبیر) 335 ۔ یعنی ہمیں علم نہیں کہ ہمارے پیچھے انہوں نے کیا کیا یا یہ کہ ان کے واقعی عقائد کیا تھے ؟ ہم تو اپنے سامنے ان کے صرف ظاہری اقوال و اعمال کو جانتے تھے، باطن کا علم تو صرف تجھی کو ہوسکتا ہے اور جزا صرف انہیں اصل عقائد پر ملے گی، معناہ لاعلم لنا بباطن ما اجاب بہ اممنا لان ذلک ھو الذی یقع علیہ الجزاء (قرطبی) دوسری تفسیر اسی سے ملتی جلتی یہ بھی کی گئی ہے کہ یہ جواب محض غلبہ خشیت سے ادبا ہوگا۔ یعنی تیرے علم کامل و محیط کے آگے ہمارا علم ہیچ ہے۔ جو کچھ ہمیں علم ہے بھی، خود اس کا بھی تو ہم سے عالم تر ہے۔ بعض صحابیوں اور تابعین سے یہی معنی مروی ہیں۔ لاعلم لنا لانک تعلم ما اظھروا وما اضمروا ونحن لانعلم الا ما اظھروا فعلمک فیھم انفذ من علمنا (ابن عباس (رح) امام المفسرین ابن جریر طبری اور فخر المفسرین امام رازی (رح) دونوں نے اسی کو ترجیح دی ہے واولی الاقوال بالصواب قول من قال معناہ لاعلم لنا الا علم انت اعلم بہ منا (ابن جریر) وھو الاصح (کبیر) دونوں تفسیروں کے درمیان کچھ زیادہ فرق نہیں، امام رازی (رح) نے ایک تیسرے معنی یہ بھی بیان کئے ہیں کہ ہمیں جو کچھ حاصل ہے وہ محض درجہ ظن کی چیز ہے اور آج جو کشف حقائق کا دن ہے محض ظن کام نہیں دے سکتا، آج تو علم ہی کام دے گا اور وہ بس تجھی کو حاصل ہے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس ذہول کی وجہ بعض نے تجلی جلال کے آثار ظہور کو بتایا ہے۔
Top