Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 115
قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مُنَزِّلُهَا عَلَیْكُمْ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّیْۤ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُهٗۤ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : کہا اللّٰهُ : اللہ اِنِّىْ : بیشک میں مُنَزِّلُهَا : وہ اتاروں گا عَلَيْكُمْ : تم پر فَمَنْ : پھر جو يَّكْفُرْ : ناشکری کریگا بَعْدُ : بعد مِنْكُمْ : تم سے فَاِنِّىْٓ : تو میں اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا : اسے عذاب دوں گا ایسا عذاب لَّآ : نہ اُعَذِّبُهٗٓ : عذاب دوں گا اَحَدًا : کسی کو مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اللہ نے فرمایا کہ وہ کھانا ضرور تم پر اتار دوں گا۔ لیکن پھر جو کوئی تم میں سے کفر اختیار کرے گا اسے سزا بھی وہ دوں گا کہ وہ سزا دنیا والوں میں سے کسی کو بھی نہ دوں گا،350 ۔
350 ۔ ایسی کھلی ہوئی حس ومشاہدہ میں آئی ہوئی نعمت کا انکار جس شدید درجہ کی ناشکر گزاری ہے۔ سزا بھی اسی درجہ میں شدید ملے گی، اجر ایمان کا دارومدار غیبیت پر ہے اور جو واقعہ سلسلہ اسباب عادیہ سے اس قدر الگ ہو، جیسا کہ بلااسباب ظاہری بلکہ خلاف اسباب ظاہری، آسمان سے یا جہت آسمان سے تیار شدہ کھانے کا اتر آنا، نہایت بین اور معمول سے زیادہ نمایاں معجزہ ہے، اتنے کھلے ہوئے خارق عادت سے ایمان پر انکار گویا غیب ہی نہیں، کہنا چاہیے کہ شہود کے بعد بھی انکار پر قائم رہنا ہے۔ جو جحود کی قبیح ترین شکل ہے۔ اور ایسے جرم کی سزا بھی شدت جرم ہی کی مناسبت سے شدید ترین ہوگی، (آیت) ” انی منزلھا علیکم “۔ مفسرین کے ایک گروہ نے ان الفاظ سے یہ استنباط کیا ہے کہ نزول مائدہ ضرور واقع ہو کر رہا، لیکن مفسرین ہی کے دوسرے گروہ نے ان الفاظ کے ساتھ اس کی بھی قید لگا دی ہے۔ یعنی ان سالتم اور نزول سے انکار بعض تابعین تک سے منقول ہے فقال مجاھد والحسن لم تنزل (معالم)
Top