Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 117
مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْ١ۚ وَ كُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْ١ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ
مَا قُلْتُ : میں نے نہیں کہا لَهُمْ : انہیں اِلَّا : مگر مَآ اَمَرْتَنِيْ : جو تونے مجھے حکم دیا بِهٖٓ : اس کا اَنِ : کہ اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ رَبِّىۡ : میرا رب وَرَبَّكُمْ : اور تمہارا رب وَكُنْتُ : اور میں تھا عَلَيْهِمْ : ان پر شَهِيْدًا : خبردار مَّا دُمْتُ : جب تک میں رہا فِيْهِمْ : ان میں فَلَمَّا : پھر جب تَوَفَّيْتَنِيْ : تونے مجھے اٹھا لیا كُنْتَ : تو تھا اَنْتَ : تو الرَّقِيْبَ : نگران عَلَيْهِمْ : ان پر واَنْتَ : اور تو عَلٰي : پر۔ سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے شَهِيْدٌ : باخبر
میں نے تو ان سے کچھ بھی نہیں کہا تھا بجز اس کے کہ جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا یعنی یہ کہ میرے اور اپنے پروردگار اللہ کی پرستش کرو،356 ۔ میں ان پر گواہ رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا پھر جب تو نے مجھے (دنیا سے) اٹھا لیا (جب سے) تو ہی ان پر نگران ہے اور تو تو ہر چیز پر گواہ ہے،357 ۔
356 ۔ موجودہ انجیلیں بھی باوجود اپنی تثلیثی شرک کے اس توحیدی تعلیم کو مٹا نہ سکیں :۔ ” یسوع نے اس سے کہا، اے شیطان دور ہو، کیونکہ لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر، تب ابلیس اس کے پاس سے چلا گیا اور دیکھو فرشتے آکر اس کی خدمت کرنے لگے “ (متی۔ 4: 10، 1 1) ” یسوع نے جواب میں اس سے کہا۔ لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر، اور صرف اسی کی عبادت کر “ (لوقا۔ 4:8) (آیت) ” ان اعبدوا “۔ میں ان مفسرہ ای کے مرادف ہے۔ ان مفسرۃ بمعنی ای (مدارک) ان مفسرۃ (کبیر) حضرت کا یہ کلام آپ کی کمال عبدیت اور انتہائی عبودیت پر دلالت کررہا ہے۔ آپ (علیہ السلام) نے اس پیام توحید کو بھی براہ راست اپنی جانب منسوب نہیں کردیا کہ میں انہیں یہ پیام دے آیا تھا، بلکہ یوں عرج کیا کہ میں تو وہی کہہ آیا تھا جس کا تو نے ہی حکم دیا تھا، پیام توحید بھی میری اپنی طرف سے نہ تھا، تیرے ہی ارشاد کی تعمیل یہ بھی تھی، 357 ۔ آیت میں ایک بار پھر حضرت حق کے علم محیط وکامل کا اثبات ہے۔ (آیت) ” کنت علیھم شھیدا مادمت فیھم “۔ یعنی میں جب تک دنیا میں موجود رہا۔ میری امت کا حال میرے علم ومشاہدہ میں آتا رہا۔ (آیت) ” فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم “ یعنی جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا۔ اس کے بعد سے مجھے کچھ خیر خبر نہیں۔ (آیت) ” توفیتنی “۔ یہ لفظ دونوں مفہوموں کو شامل ہے۔ زندہ آسمان پر اٹھا لیے جانے کو بھی اور دوبارہ اپنے وقت اصلی پر وفات کو بھی۔ المراد منہ وفاۃ الرفع الی السماء (کبیر) ای قبضتنی بالرفع الی السماء کما یقال توفیت المال اذا قبضتہ وروی ھذا عن الحسن وعلیہ الجمھور (روح)
Top