Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 119
قَالَ اللّٰهُ هٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُهُمْ١ؕ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
قَالَ : فرمایا اللّٰهُ : اللہ هٰذَا : یہ يَوْمُ : دن يَنْفَعُ : نفع دے گا الصّٰدِقِيْنَ : سچے صِدْقُهُمْ : ان کا سچ لَهُمْ : ان کے لیے جَنّٰتٌ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے وہ فِيْهَآ : ان میں اَبَدًا : ہمیشہ رَضِيَ : راضی ہوا اللّٰهُ : اللہ عَنْهُمْ : ان سے وَرَضُوْا : اور وہ راضی ہوئے عَنْهُ : اس سے ذٰلِكَ : یہ الْفَوْزُ : کامیابی الْعَظِيْمُ : بڑی
اللہ فرمائے گا آج وہ دن ہے جب سچوں کے کام ان کا سچ آئے گا،360 ۔ ان کیلئے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ ہمیش کو رہیں گے اللہ ان سے خوش رہا اور وہ اللہ سے خوش رہے، یہی بڑی کامیابی ہے،361 ۔
360 ۔ حق تعالیٰ کا یہ ارشاد اوپر کے سب مکالمات ومخاطبات کے بعد ہوگا۔ (آیت) ” صدقین “۔ وہ ہیں جو دنیا میں عقائد صحیحہ و اعمال پر قائم رہے ہوں۔ المعنی ان صدقھم فی الدنیا ینفعھم فی القیامۃ (کبیر) اس کے تحت میں انبیاء کے علاوہ عام مومنین بھی داخل ہیں۔ 361 ۔ (آیت) ” یہ بڑی کامیابی یا فوز عظیم کس چیز کو کہا گیا ہے ! جمہور مفسرین کا خیال ہے کہ یہ اشارہ پوری آیت کی جانب، یعنی نعمت جنت اور نعمت رضوان الہی سب کی جانب ہے۔ الجمھور علی ان قولہ ذلک عائد الی جملۃ ما تقدم من قولہ لھم جنات الی قولہ ورضواعنہ (کبیر) لیکن امام رازی (رح) نے یہ نکتہ نکالا ہے کہ (آیت) ” الفوز العظیم “۔ کا تعلق صرف رضوان الہی سے ہے جس کے مقابلہ میں جنت کی عام نعمتوں کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔ وعندی انہ یحتمل ان یکون ذلک مختصا بقولہ رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ فانہ ثبت عند ارباب الالباب ان جملۃ الجنۃ بما فیھا بالنسبۃ الی رضوان اللہ کالعدم بالنسبۃ الی الوجود وکیف والجنۃ مرغوب الشھوۃ والرضوان صفۃ الحق وای مناسبۃ بینھما (کبیر) امام موصوف تصوف کے بھی ذوق شناس تھے، خدا جانے خشک متکلم کیسے مشہور ہوگئے، خودبھی خشک متکلموں سے عاجز تھے۔ چناچہ یہیں اپنا خیال لکھ کر فرماتے ہیں :۔ وھذا الکلام یشمئز منہ طبع المتکلم الظاھری ولکن کل میسر لما خلق (کبیر) (آیت) ” ابدا “۔ صراحت کے ساتھ یہ دوام اور ہدایت کی خوشخبری اہل جنت ہی کے حصہ میں آئی ہے۔ ورنہ اہل دوزخ کے لیے وعید صرف لفظ خلود کی حد تک ہے۔ اشارۃ الی الدوام (کبیر)
Top