Ahkam-ul-Quran - At-Tur : 4
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ : حرام کردیا گیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةُ : مردار وَالدَّمُ : اور خون وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ : اور سور کا گوشت وَمَآ : اور جو۔ جس اُهِلَّ : پکارا گیا لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا بِهٖ : اس پر وَ : اور الْمُنْخَنِقَةُ : گلا گھونٹنے سے مرا ہوا وَالْمَوْقُوْذَةُ : اور چوٹ کھا کر مرا ہوا وَالْمُتَرَدِّيَةُ : اور گر کر مرا ہوا وَالنَّطِيْحَةُ : اور سینگ مارا ہوا وَمَآ : اور جو۔ جس اَ كَلَ : کھایا السَّبُعُ : درندہ اِلَّا مَا : مگر جو ذَكَّيْتُمْ : تم نے ذبح کرلیا وَمَا : اور جو ذُبِحَ : ذبح کیا گیا عَلَي النُّصُبِ : تھانوں پر وَاَنْ : اور یہ کہ تَسْتَقْسِمُوْا : تم تقسیم کرو بِالْاَزْلَامِ : تیروں سے ذٰلِكُمْ : یہ فِسْقٌ : گناہ اَلْيَوْمَ : آج يَئِسَ : مایوس ہوگئے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے مِنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَلَا تَخْشَوْهُمْ : سو تم ان سے نہ ڈرو وَاخْشَوْنِ : اور مجھ سے ڈرو اَلْيَوْمَ : آج اَكْمَلْتُ : میں نے مکمل کردیا لَكُمْ : تمہارے لیے دِيْنَكُمْ : تمہارا دین وَاَتْمَمْتُ : اور پوری کردی عَلَيْكُمْ : تم پر نِعْمَتِيْ : اپنی نعمت وَرَضِيْتُ : اور میں نے پسند کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الْاِسْلَامَ : اسلام دِيْنًا : دین فَمَنِ : پھر جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے فِيْ : میں مَخْمَصَةٍ : بھوک غَيْرَ : نہ مُتَجَانِفٍ : مائل ہو لِّاِثْمٍ : گناہ کی طرف فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
تم پر حرام کئے گئے ہیں مردار اور خون اور سؤر کا گوشت،1 1 ۔ اور جو جانور غیر اللہ کے لیے نامزد کردیا گیا ہو،12 ۔ اور جو گلا گھٹنے سے مرجائے اور جو کسی ضرب سے مرجائے اور جو اونچے سے گر کر مرجائے، اور جو کسی کے سینگ سے مرجاے اور جس کو درندے کھانے لگیں، سوا اس صورت کے کہ تم اسے ذبح کرڈالو، اور جو جانور استھانوں پر بھینٹ چڑھایا جائے،13 ۔ اور نیز یہ کہ قرعہ کے تیروں،14 ۔ سے تقسیم کیا جائے یہ سب گناہ (کے کام) ہیں،15 ۔ آج کافر تمہارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے،16 ۔ سو تم ان سے نہ ڈرو، اور مجھی سے ڈرو،17 ۔ آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بہ طور دین کے پسند کرلیا،18 ۔ ہاں جو کوئی بھوک کی شدت سے بیقرار ہوجائے، گناہ کی طرف رغبت کئے بغیر،19 ۔ سو اللہ بڑا مغفرت والا ہے، بڑا رحمت والا ہے،20 ۔
1 1 ۔ آیت نمبر ایک میں (آیت) ” الا ما یتلی “۔ گزر چکا ہے، اب اسی کی تفصیل بیان ہورہی ہے۔ (آیت) ” المیتۃ “۔ یعنی وہ جانور جو بلا ذبح شرعی مرجائے (آیت) ” الدم “۔ دم مسفوح یعنی بہتا ہوا خون مراد ہے (آیت) ” لحم الخنزیر “۔ اسی میں سورة کی چربی وغیرہ اس کے جسم کے دوسرے اجزاء بھی شامل ہیں۔ اکلہ نجس وانما خص اللحم لانہ معظم المقصود (مدارک) فانہ قد تناول شحمہ وعظمہ وسائر اجزاۂ ولا خلاف بین الفقہاء فی ذلک (جصاص) سؤر کے گوشت کی جسمانی مضرتوں سے طبی لٹریچر بھرا پڑا ہے۔ اخلاقی وروحانی نقصانات کا ذکر ہی کیا۔ 12 ۔ (بہ خیال تقرب اور بہ نیت عبادت) حرمت کا اصل مدار ذابح کی نیت پر ہے۔ اور یہ غیر اللہ کی طرف نامزدگی خواہ عین ذبح کے وقت ہو یا اس سے قبل، قبروں، درگاہوں پر چڑھاوے چڑھانے والے ذرا اپنے لیے بھی سوچ لیں۔ 13 ۔ (عام اس سے کہ نامزدگی غیر اللہ کی جانب زبان سے بھی کی جائے یا محض دل میں نیت رکھی جائے) حرمت کی اصل بنا اعتقاد خبیث ہے، خواہ زبان سے اس کا اظہار کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ پتھروں پر ذبح فی نفسہ حرام نہیں، حرام یہ نیت خبیث ہے۔ ما ذبح علی اعتقاد تعظیم النصب (کبیر) والنیۃ فیھا تعظیم النصب لاان الذبح علیھا غیر جائز (قرطبی) (آیت) ” علی “۔ ہوسکتا ہے کہ یہاں، ل، کے مرادف ہو، یعنی تھانوں پر چڑھائے جانے کی غرض سے۔ قال قطرب علی بمعنی اللام ای وما ذبح لاجل النصب (معالم) قیل علی بمعنی اللام ای لاجلھا (قرطبی) (آیت) ” الموقوذۃ یہ وہ جانور ہے جو کسی ضرب سے مرجائے۔ المقتولۃ بالضرب (راغب) فقہاء نے ایسے جانور کو بھی جو محض غلہ یا گولی سے بلاذبح مرجائے اسی حکم میں داخل کیا ہے۔ ویدخل فی الموقوذۃ ما رمی بالبندق فمات۔ (کبیر) (آیت) ” المتردیۃ “ پہاڑی سے گر کرمر جانا یا کنوئیں میں گر کر مرجانا سب اسی کے تحت میں آجاتا ہے (آیت) ” وما اکل السبع “ یعنی وہ جانور جسے درندے کھانے لگیں اور وہ اسی صدمہ سے مرجائے۔ (آیت) ” الاما ذکیتم “۔ یعنی تم اسے ذبح کرڈالو قبل اس کے کہ اس کا دم نکلے، اس استثناء کا تعلق اوپر کی لکھی ہوئی سب صورتوں سے ہے۔ یعنی گردن سے مووڑے ہوئے، چوٹ کھائے ہوئے وغیرہ سب حلال جانور بھی حرام ہیں، بشرطیکہ ابھی جانور کا دم نہ نکلا ہو اور وہ مطابق شرع ذبح کرلیا جائے، ایسا جانور حکم حرمت سے مستثنی اور حلال ہے۔ نصب علی الاستثناء المتصل عند الجمھور من العماء والفقھاء وھو راجع علی کل ماادرک ذکانۃ من المذکورات وفیہ حیاۃ (قرطبی) (آیت) ” ذکیتم “۔ ذکاۃ۔ ذبح کے معنی میں ہے۔ الذکاۃ فی کلام العرب الذبح قالہ قطرب (قرطبی) التذکیۃ الذبح (نہر) 14 ۔ (آیت) ” ازلام “۔ ایک ستور اہل جاہلیت کا یہ ہے کہ تیروں پر اجازت وممانعت کے الفاظ لکھ رکھتے تھے، اور بعض خالی چھوڑتے تھے، اور سفر تجارت جنگ وغیرہ کے اہم موقعوں پر یہ کرتے کہ انہی تیروں سے جا کر فال لیتے، اور جو حکم نکل آتا، اسی پر عمل کرتے۔ خود صحیح بخاری، کتاب التفسیر میں ایک روایت اسی مضمون کی ہے۔ والاستقسام ان یحیل القداح فان نھتہ انتھی وان امرتہ فعل ما امرہ وقد اعملوا القداح اعلاما بضروب یستقسمون بھا، صحابہ تابعین اور اکثر مفسرین سے یہی معنی منقول ہیں۔ یعنی القداح کانوا یستقسمون بھا فی الامور (ابن جریر عن ابن عباس ؓ وکذا روی عن مجاھد و ابراہیم النخعی والحسن البصری ومقاتل بن حیان (ابن کثیر) فمعنی الاستقسام بالازلام طلب معرفۃ الخیر والشربواسطۃ ضرب القداح وھو اختیار الجمھور (کبیر) مجاہد تابعی (رح) کے ایک قول سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرعہ اندازی، فال گیری اور وہم پرستی کی یہ شکل اہل عرب کے ساتھ مخصوص نہ تھی، ایران اور رومہ کی بڑی بڑی مہذب ومتمدن قومیں اس میں مبتلا تھیں۔ قال سھام العرب وکعاب الفارس والروم کانوا یتقامرون بھا، (ابن جریر، ابن کثیر۔ قرطبی، عن مجاہد) مفسر تھانوی (رح) نے کہا ہے کہ آج کل چھٹی ڈالنے کا جو دستور نکلا ہے، وہ اسی سے ملتی جلتی ہوئی ایک شکل قمار کی ہے۔ 15 ۔ (اور اللہ کے مقرر کیے ہوئے دین وآئیں کی خلاف ورزی) (آیت) ” ذلکم “ کا اشارہ ممکن ہے کہ استقسام بالازلام تک محدود ہو۔ لیکن زیادہ قابل قبول یہ ہے کہ ان سب چیزوں کی طرف ہو جن کی ممانعت اوپر آچکی ہے۔ یرجع الی جمیع ما ذکر من الاستحلال لجمیع ھذہ المحرمات وکل شیء منھا فسق وخروج من الحلال الی الحرام (قرطبی) راجعا الی جمیع ما تقدم ذکرہ من التحلیل والتحریم (کبیر) (آیت) ” ذلک “۔ اشارۂ بعید ہے۔ یہاں کنایہ ان افعال کی بعد منزلت سے ہے۔ ومعنی البعد فیہ الاشارۃ الی بعد منزلتہ فی الشر (روح۔ ابو سعود) 16 ۔ (کہ یہ دین کبھی بھی مغلوب یا گمنام ہوسکے گا) آیت کے نزول کا وقت یوم جمعہ (ذی الحجہ 9 ھ ؁، 15، 16؍مارچ 632 ء۔ ) بعد عصر، مقام عرفات ہے، نزلت فی یوم عیدین فی یوم الجمعۃ ویوم عرفۃ (ترمذی ابواب تفسیر القرآن، عن ابن عباس ؓ رسول اللہ ﷺ نے اس کے نزول کے کل دو مہینے 2 1 دن بعد انتقال فرمایا۔ نکتہ رس ودقیقہ سنج اصاب نبی آیت کے مضمون ہی سے سمجھ گئے تھے کہ اب دین ہر طرح مکمل ومستحکم ہوچکا نبی کے مشن کی ہر طرح تکمیل ہوچکی، نبی کو اب دنیا میں مزید قیام کی ضرورت کیا رہی، زمانہ مفارقت نبوی کا قریب آگیا، چناچہ حدیث وسیر کی کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ آیت کو سن کر رو پڑے تھے۔ 17 ۔ یعنی میرے احکام کی مخالفت نہ کرو۔ یہ گویا وعدۂ الہی ہے کہ اب تشویش وتردد کی چیز غلبہ کفر واستیلاء کفار نہیں۔ بلکہ احکام شریعت سے تجاوز وتزلزل ہے، یہی چیز ایسی ہے جو مسلمانوں کو ضرر پہنچا سکتی ہے، اور ان کے ملی وجود کے لیے خطرہ کا باعث بن سکتی ہے۔ خشیت الہی ہی ایک ایسی چیز ہے، جس کی کمی مسلمانوں میں ضعف پیدا کرسکتی ہے، نہ کہ کفر وغیرہ کی کوئی خارجی قوت۔ 18 ۔ (قیامت تک کے لیے) (آیت) ” اکملت لکم دینکم “۔ یہ اکمال دین بہ لحاظ قوت بھی ہے اور بہ لحاظ احکام وقواعد بھی۔ (آیت) ” اتممت علیکم نعمتی “۔ یہ اتمام نعمت اسی دین کی تکمیل سے ہوا۔ اس اکمال دین واتمام نعمت کے بعد ظاہر ہے کہ اب دین میں کسی ترمیم، اضافہ، تصرف کی گنجائش نہ رہی، نہ کسی نبی کی بعثت کی حاجت، ختم نبوت پر اگر دلائل صریحہ موجود ہوتے، تو یہاں سے بھی مسئلہ کا استباط ہوسکتا تھا۔ شیعی عقیدۂ امامت کا، جو درحقیقت اجزاء نبوت ہی کی ایک شکل ہے، رد بھی یہیں سے نکل آتا ہے۔ البتہ ہر دور میں نئے نئے مسائل کا انکشاف اہل علم و اجتہاد اپنی بصیرت سے کتاب وسنت کے اصول وقواعد کے مطابق وماتحت قیامت تک کرتے رہیں گے۔ اشیاء کی حلت و حرمت کا ذکر اوپر سے چلا آرہا تھا۔ تو یہ مسئلہ بھی اسی کتاب واضح کے اندر آگیا اور اس میں بھی اب کسی تغیر و تصرف کی گنجائش نہ رہی۔ (آیت) ” الیوم “۔ دین الہی چلا تو شروع ہی سے آرہا تھا، لیکن ہر نبی کے عہد میں زمان ومکان کے مصالح ومقتضیات کے لحاظ سے احکام شریعت وقت ومقام کے ساتھ محدود ومخصوص رہتے تھے، دین اب پہلی بار عالمگیر اپنے جزئیات وتفصیلات کے ساتھ ہورہا ہے۔ (آیت) ” الیوم “۔ میں اشارہ اسی جانب ہے کہ اب خدائی پروگرام میں وحدت نسل انسانی کا زمانہ شروع ہونے کو ہے دنیا اب تک مختلف جغرافی حصوں اور ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھی، ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر نہایت دشوار تھا، اور اس میں نامہ وپیام کی بھی کوئی آسان راہ نہ تھی۔ ہر علاقہ کہنا چاہیے اپنے جغرافی و طبعی سرحدوں کے اندرمحفوظ تھا، دریا، پہاڑ، سمندر وغیرہ جو راہ میں حائل رہتے، ان کا عبور کرنا گویا محال تھا۔ ریل، موٹر، لاری، تار، ٹیلیفون وغیرہ خواب و خیال میں بھی نہ تھے، اب کائنات ارضی کی تاریخ میں پہلی بار اس کا وقت آرہا تھا کہ انسانیت کے ٹکڑے ایک دوسرے سے ملیں، رسل و رسائل کے ذرئع وسیع ہوں۔ اور جس طرح نظام تکوینی میں ہر فرد کے لیے، اس کے وجود میں آنے سے قبل ہی اس کے لیے ہوا کا، اور روشنی کا اور پانی کا سامان حکمت الہی موجود رکھتی ہے اسی طرح نظام تشریعی میں رحمت حق نے چاہا کہ نوع انسان کی انفرادی واجتماعی دونوں زندگیوں کی روحانی واخلاقی تربیت کا انتظام پیشتر سے موجود رہے، مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ فقہاء ظاہر اور حکماء باطن نصوص سے جو مستنبط کرتے ہیں، وہ بھی سب دین ہی میں داخل ہے، ورنہ اکمال دین کے بعد اس کی اجازت نہ ہوتی۔ 19 ۔ (اور حرام ماکولات میں کسی شے کو کھاپی لے) فاباح اللہ عند الضرورۃ اکل جمیع مانص علی تحریمہ فی الایۃ (جصاص) (آیت) ” مخمصۃ “۔ کے معنی شدید بھوک کے ہیں۔ المخمصۃ المجاعۃ (جصاص) قال اھل اللغۃ الخمص والمخمصۃ خلو البطن من الطعام عند الجوع (کبیر) (آیت) ” غیر متجانف الاثم “۔ یعنی حرام شے محض بھوک کی شدت سے مجبور ہو کر کھالی جائے، حصول لذت کی نیت نہ ہو، اور نافرمانی یا قانون شکنی مقصود نہ ہو، ای غیر متعمد لمعصیۃ فی قصدہ قالہ قتادۃ والشافعی رحمھما اللہ (قرطبی) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ جس چیز کی اجازت بہ ضرورت دی جائے، اس سے حظ نفس کا قصد جائز نہیں۔ جیسے طیبب یا گواہ عورت یا اس کے جسم کو بہ ضرورت دیکھے، تو بہ قصد شہوت نظر کرم حرام ہے۔ 20 ۔ صفت غفر لا کر یہ یاد دلا دیا کہ اگر قدر ضرورت سے کوئی ایک آدھ لقمہ زیادہ کھا گیا، جب بھی معاف کردیا جائے گا اور صفت رحمت سے یہ اشارہ ہے کہ قانون ایسے موقع کے لیے دیکھو کیسا نرم وآسان رکھ دیا۔
Top