Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 51
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ١ؔۘ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَتَّخِذُوا : نہ بناؤ الْيَھُوْدَ : یہود وَالنَّصٰرٰٓى : اور نصاریٰ اَوْلِيَآءَ : دوست بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض اَوْلِيَآءُ : دوست بَعْضٍ : بعض (دوسرے) وَمَنْ : اور جو يَّتَوَلَّهُمْ : ان سے دوستی رکھے گا مِّنْكُمْ : تم میں سے فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ مِنْهُمْ : ان سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم
اے ایمان والو ! یہود ونصاری کو دوست مت بنانا،190 ۔ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں،191 ۔ اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا وہ ان ہی میں (شمار) ہوگا،192 ۔ بیشک اللہ ظالم لوگوں کو راہ نہیں دکھاتا،193 ۔
190 ۔ (جو صاحب کتاب ہونے کے باوجود قانون الہی کے منکر بلکہ اس کے باغی ہیں) (آیت) ” اولیآء “۔ ولی کی جمع ہے، اور ولی کا اطلاق دوست، قریبی اور ناصر و مددگار سب پر ہوتا ہے۔ یہاں جس چیز کی ممانعت فرمائی گئی ہے، وہ تعلق دوستی، محبت، قرب اختصاصی کا ہے، رہا عدل وحسن سلوک، تو اس کا تعلق کفر واسلام سے نہیں، وہ تو ہر فرد بشر، بلکہ ہر مخلوق کے حق میں لازمی ہے، ایک تیسری اور درمیانی صورت مصالحت ومعاملت کی رہ جاتی ہے تو وہ اہل اسلام کی اپنی مصلحت کے تابع ہے۔ صلح اور عہد و پیمان ہر کافر جماعت سے مشروع طریقہ پر کرسکتے ہیں، ممانعت قطعی صرف موالات یا دوستانہ اتحاد اور برادرانہ مناصرۃ کی ہے۔ ھذا یدل علی قطع الموالات شرعا (قرطبی) ای لاتعتمدوا علی الاستنصار بھم ولا تتودوا الیھم (کبیر) اور پھر یہ ممانعت جب اہل کتاب سے دوستی اور یگانگت کی ہے، جو توحید، سلسلہ نبوت اور اجزائے آخرت کے عقائد میں کم از کم اصولی طور پر تو مسلمانوں سے متحد ہیں، تو ظاہر ہے کہ مشرکین کے مقابلہ میں یہ ممانعت کتنی مؤکد اور اشد ہوگی جو مسلمانوں کے ساتھ کچھ بھی قدر مشترک نہیں رکھتے۔ یہ نہ بھی ہو، بھی کافر کتابی کے درجہ میں تو وہ بہرحال رہیں گے فاذا امرنا بمعاداۃ الیھود والنصاری لکفرھم فغیرھم من الکفار بمنزلتھم (جصاص) 191 ۔ (اپنی مناسبت باہمی اور اسلام سے عداوت مشترک کی بنا پر) مطلب یہ ہوا کہ یہودی یہودی اور نصرانی نصرانی تو باہم دوست ہوتے ہی ہیں، باقی خود یہودونصاری کے درمیان بھی بہت کچھ مناسبت ہے، کم از کم یہی کہ اسلام اور مسلمانوں کی عداوت پر دونوں متحد ہیں، ان کے آپس میں اگر تمہارے خلاف ساز باز ہوجائے تو کچھ تعجب نہیں، لیکن تم جو اہل ایمان ہو، تم میں اور منکرین قرآن میں مناسبت ہی کیا، اور اشتراک کیسا ؟ آج جب کہ یہ سطریں لکھی جارہی ہیں (جمادی الثانی 1365 ؁ مئی 1946 ؁ء) فلسطین میں مسلمانوں کے خلاف یہود اور نصرانیوں کی ساز باز قرآن مجید کی اس پیش خبری کی معجزانہ تصدیق پیش کررہا ہے۔ 192 ۔ یعنی وہ بھی انہیں میں داخل و شامل اور انہی کا ایک جزو یا ضمیمہ سمجھا جائے گا۔ ای من جملتھم وحکمہ حکمھم وھذا تغلیظ من اللہ و تشدید فی وجوب مجانبۃ المخالف فی الدین (مدارک) غیروں، بیگانوں، اللہ کے دشمنوں سے دوستی ہو نہیں سکتی، جب تک پہلے ان کی عظمت یا محبت کا نقش دل پر نہ بیٹھ لے، اور مسلمان اپنی پختگی سے کچھ نہ کچھ ہٹ نہ لے۔۔۔ قوی تشخص اور ملت کی خودی کے لیے لازمی ہے کہ ملت اسلامی کے دوستانہ، راز دارانہ، برادرانہ تعلقات غیر مسلموں سے بالکل ممنوع قرار دے دیئے جائیں، یہ آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ جو لوگ دشمنان دین کے ساتھ خلا ملا، میل جول زیادہ رکھتے ہیں، ان کے اندر سے فہم دین اور دینی تصلب اور ملی خودداری رخصت ہوجاتی ہے۔ حدیث نبوی میں دوسری قوموں کے وضع و لباس اختیار کرنے، ان سے تشبہ پیدا کرنے کی جو ممانعت آئی ہے، وہ عجب نہیں کہ انہی حکمتوں اور مصلحتوں پر مبنی ہو۔193 ۔ یعنی دین کی سمجھ اور غیرت ملی ایسے لوگوں سے سلب ہوجاتی ہے۔ ظالمین سے مراد وہ لوگ ہیں جو دین خدا کے باغیوں کو دوست وراز دار بنا کر خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہتے ہیں۔ الذین ظلموا انفسھم بموالاۃ الکفر ۃ (کشاف۔ مدارک)
Top