Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 55
اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں (صرف) وَلِيُّكُمُ : تمہارا رفیق اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے الَّذِيْنَ : جو لوگ يُقِيْمُوْنَ : قائم کرتے ہیں الصَّلٰوةَ : نماز وَيُؤْتُوْنَ : اور دیتے ہیں الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَهُمْ : اور وہ رٰكِعُوْنَ : رکوع کرنیوالے
تمہارے دوست تو بس اللہ اور اس کا رسول ﷺ اور ایمان والے ہیں جو نماز کی پابندی رکھتے ہیں، اور زکوٰۃ دیتے رہتے ہیں، اس حال میں کہ وہ خشوع بھی رکھتے ہیں،201 ۔
201 ۔ (آیت) ” ولیکم “۔ یہاں ولی اس معنی میں ہے کہ وہ جس سے تمہیں دوستی رکھنا چاہیے، یعنی تمہارے حقیقی دوست، اور خطاب امت اسلامی سے ہے، اوپر ذکر اس کا تھا کہ یہود ونصاری کو اپنا دوست مت بناؤ۔ اب گویا ارشاد یہ ہورہا ہے کہ دوست اللہ اور رسول اور اہل ایمان کو بناؤ۔ فکانہ قیل لاتتخذوا اولئک اولیاء انما اولیاء کم اللہ تعالیٰ ورسولہ والمومنون فاختصوھم بالموالاۃ (روح) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس میں ایسے شخص سے علیحدہ رہنے پر دلالت ہے جو اہل اللہ اور ان کے طرق کے ساتھ تمسخر کرے، (آیت) ” وھم رکعون “۔ میں، و، حالیہ ہے۔ والواوللحال (کشاف) ای یعملون ذلک فی حال الرکوع (کشاف) لیکن خود رکوع کے اس سیاق میں کیا معنی ہیں ؟ رکوع یہاں بمعنی خشوع ہے نماز کی اصطلاحی ہیئت متعارف مراد نہیں، وھو الخشوع والاخبات والتواضع للہ اذا صلوا واذا زکوا (کشاف) ولرکوع ھنا ظاھرہ الخضوع لا الھیءۃ التی فی الصلوۃ (بحر) مطلب یہ ہوا کہ ان کی اقامت صلوۃ وادائے زکوٰۃ محض صورت ظاہری کے لحاظ سے نہیں ہوتی، بلکہ وہ صحیح کیفیت باطنی ملحوظ رکھتے ہیں۔ (آیت) ” ( 1) الذین امنوا۔ (2) الذین یقیمون الصلوۃ ویؤتون الزکوۃ۔ (3) وھم رکعون “۔ غرض یہ کہ وہ لوگ عقائد ( 1) اور اعمال (2) بدنی ومالی اور (3) اخلاص واخلاق سب کے جامع ہوں گے، مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ عین ذکر میں اگر کسی ایسے شغل کا ہجوم وتقاضا ہو کہ اگر اس سے فارغ نہ ہو تو اس کا قلب مشغول رہے تو اس سے جلد فارغ ہوجانا ہی مستحسن ہے۔
Top