Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 58
وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّ لَعِبًا١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ
وَاِذَا : اور جب نَادَيْتُمْ : تم پکارتے ہو اِلَى : طرف (لیے) الصَّلٰوةِ : نماز اتَّخَذُوْهَا : وہ اسے ٹھہراتے ہیں هُزُوًا : ایک مذاق وَّلَعِبًا : اور کھیل ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لیے کہ وہ قَوْمٌ : لوگ لَّا يَعْقِلُوْنَ : عقل نہیں رکھتے ہیں (بےعقل)
اور جب تم نماز کے لئے پکار کرتے ہو،205 ۔ تو یہ لوگ اس کو ہنسی اور کھیل بنالیتے ہیں۔ یہ اس سبب سے ہے کہ یہ لوگ (بالکل) عقل سے کام نہیں لیتے،206 ۔
205 ۔ اسی پکار کا نام اصطلاح شریعت میں اذان ہے۔ اور یہ اسلام کے امتیازات خصوصی میں سے ہے۔ دوسرے مذہبوں میں اول تو روزانہ عبادت اجتماعی کا دستور ہی نہیں (چہ جائیکہ دن میں پانچ پانچ مرتبہ) اور پھر روزانہ یا ہفتہ وار جب کبھی بھی وقت و عبادت کے اعلان کی ضرورت پڑتی ہے، تو اس موقعہ پر کام گھنٹہ کی ٹھناٹھن یا گھنٹی کی ٹن ٹن سے لیا جاتا ہے ! یہ شرف صرف اسلام کے ساتھ مخصوص ہے کہ اس نے عبادت کے اعلان دعوت کا طریقہ ایسا نکالا، جو عبادت کا ذریعہ ہی نہیں، بلکہ بجائے خود بھی ایک عبادت ہی ہے ! اذان میں ہوتا کیا ہے ؟ نہ باجہ نہ گانا، نہ جرس نہ ناقوس، نہ قومی نغمہ نہ ملی ترانہ، بس اللہ کی حکومت وکبریائی، اللہ کی توحید اور محمد ﷺ کی رسالت کے اقرار کے ساتھ ساتھ لوگوں کو نماز کی طرف بلاوا الفاظ کل یہی ہوتے ہیں، کہ :۔ اللہ اکبر (چار بار) اللہ ہی بڑا ہے۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ۔ (دو بار) میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اشھد ان محمدا رسول اللہ۔ (دو بار) میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ حی علی الصلوۃ (دو بار) لپکو نماز کی طرف۔ حی علی الفلاح (دو بار) لپکو فلاح و بہبود کی طرف۔ الصلوۃ خیرمن النوم (دو بار) نماز نیند سے کہیں بہتر ہے۔ (صرف فجر کے وقت) اللہ اکبر (دو بار) اللہ ہی بڑا ہے۔ لاالہ الا اللہ (ایک بار) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ فرمائیے، اس سے پاکیزہ تر پکار اور کیا ہوسکتی ہے ؟ اس وسیع کرۂ ارض کے جس قطعہ میں جہاں بھی کوئی مسجد ہے، مؤذن اس پاک گھر میں خود بھی پاک وصاف ہوکر، باوضو کسی بلند مقام پر کھڑے ہوکر، اللہ کی کبرائی، اللہ کی یکتائی، محمد کی رسالت کی منادی بلند آواز سے کرتا رہتا ہے، اور لوگوں کے لیے عبادت و فلاح کی دعوت بغیر کسی مادی آلہ کی مدد کے فضا میں پانچ بار ہر روز بلند ہوتی رہتی ہے ! ظالم اسی صدائے خیر و فلاح کو روکنا اور بند کرنا چاہتے تھے، غیر قوم والے اس قدرتی لحن سے جس طرح متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ 206 ۔ اس پاکیزہ صدا کا کونسا جزو آکر قابل مضحکہ ہے ؟ کونسا پہلو اس کا قابل تمسخر ہے ؟ اتنا صحیح، سچا، سنجیدہ پیام آخر کس اعتبار سے ناقابل التفات ہے ؟ اور جو اسے قابل تحقیر سمجھیں، کیا ان کی انتہائی بےعقلی، کج فہمی پر کسی مزید دلیل قائم کرنے کی ضرورت ہے ؟ (آیت) ” اتخذوھا “۔ میں ضمیر صلوۃ کی طرف بھی ہوسکتی ہے۔ اور ندا (اذان) کی طرف بھی۔ الضمیر للصلوۃ او للمناداۃ (کشاف) سیاق کے لحاظ سے اذان ہی مراد لینا بہتر ہوگا۔
Top