Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 60
قُلْ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَةً عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَ غَضِبَ عَلَیْهِ وَ جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَ الْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَ١ؕ اُولٰٓئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ
قُلْ : آپ کہ دیں هَلْ : کیا اُنَبِّئُكُمْ : تمہیں بتلاؤں بِشَرٍّ : بدتر مِّنْ : سے ذٰلِكَ : اس مَثُوْبَةً : ٹھکانہ (جزا) عِنْدَ : ہاں اللّٰهِ : اللہ مَنْ : جو۔ جس لَّعَنَهُ : اس پر لعنت کی اللّٰهُ : اللہ وَغَضِبَ : اور غضب کیا عَلَيْهِ : اس پر وَجَعَلَ : اور بنادیا مِنْهُمُ : ان سے الْقِرَدَةَ : بندر (جمع) وَالْخَنَازِيْرَ : اور خنزیر (جمع) وَعَبَدَ : اور غلامی الطَّاغُوْتَ : طاغوت اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ شَرٌّ : بد ترین مَّكَانًا : درجہ میں وَّاَضَلُّ : بہت بہکے ہوئے عَنْ : سے سَوَآءِ : سیدھا السَّبِيْلِ : راستہ
آپ کہہ دیجیے کیا میں تمہیں جتلا دوں وہ جو اللہ کے ہاں پاداش کے لحاظ سے اس سے (بھی کہیں) برا ہے،209 ۔ وہ ووہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور ان پر غضب کیا ہے،210 ۔ اور ان میں سے بندر اور سؤر بنادیئے،211 ۔ اور انہوں نے شیطان کی پوجا کی،212 ۔ ایسے لوگ مقام کے اعتبار سے بدتر اور راہ راست سے بہت دور ہیں،213 ۔
209 ۔ (جسے تم اپنے لیے برا سمجھ رہے ہو) یعنی تم تو ہمارے طریقہ کو برا سمجھ رہے ہو، لیکن میں تمہیں اس طریقہ کا پتہ بتائے دیتا ہوں جو واقعی عند اللہ سزا وپاداش کے لحاظ سے بدترین ہے۔ (آیت) ” من ذلک “۔ یعنی ہمارے اس طریقہ سے جو تمہارے نزدیک موجب صد عیب ہے۔ ای من ذلک المنقوم (بیضاوی) ای بشرمن نقمکم علینا (قرطبی) اشارۃ الی المنقم (کبیر) 210 ۔ (ان کے اسی طریق مبغوض کے باعث) (آیت) ” لعنہ “۔ لعنت پر حاشیہ اوپر گزر چکا ہے کہ اس کے معنی رحمت الہی سے دوری اور مہجوری کے ہوتے ہیں، (آیت) ” من عند اللہ “۔ کا مضاف محذوف ہے اور تقدیر کلام یوں سمجھی گئی ہے بشر من اھل ذلک من لعنہ اللہ اوبشر من ذلک دین من لعنہ اللہ (بیضاوی) لا بد من حذف المضاف وتقدیرہ بشر من اھل ذلک (کبیر) ذکر یہود کا ہے۔ 211 ۔ یہ لوگ جو بندر اور سؤر بنادیئے گئے کون تھے کہاں کے تھے، کس زمانہ کے تھے، قرآن مجید اس باب میں خاموش ہے اور احادیث صحیح میں بھی کوئی تفصیل وارد نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے اس پر محض اجمالی ایمان بالکل کافی ہے۔ البتہ جمہور مفسرین اس پر متفق ہیں کہ قردۃ بننے والے سے مراد یہود یا اصحاب السبت ہیں جن کا ذکر سورة بقرہ پارہ اول میں آچکا ہے۔ اور خنازیر سے مراد مسیحی اصحاب المائدہ ہیں، جن کا ذکر اسی سورة میں آگے آرہا ہے۔ قال اھل التفسیر عنی بالقردۃ اصحاب السبت وبالخنازیر کفار مائدۃ عیسیٰ (کبیر) ای مسخ بعضھم قردۃ وھم اصحاب السبت وبعضھم خنازیر وھم کفار مائدۃ عیسیٰ (روح) لیکن یہ قول بھی سلف ہی سے مروی چلا آرہا ہے کہ مسخ محض معنوی ہوا تھا، صوری نہ تھا، یعنی صورتیں وہی رہی تھیں، صرف سیرتیں بندروں اور سوروں کی ہوگئی تھیں، مفردارت میں لغت خنزیر کے تحت میں ہے :۔ قیل عنی من اخلاقہ وافعالہ مشابھۃ لا خلاقھا لا من خلقتہ خلق تھا وروی ان قوم مسخوا خلقۃ وکذا ایضا فی الناس قوم اذا اعتبرت اخلاقھم وجدوا کالقردۃ والخنازیر وان کانت صورھم صورالناس (راغب) اس نامہ سیاہ کو اس آیت کی تفسیر کے باب میں خاص طور پر تردد تھا۔ مسودۂ اول کی تحریر کے وقت (اپریل 1942 ء ؁ میں) حکیم الامت مفسر تھانوی (رح) زندہ و سلامت تھے۔ حل مشکل کے لیے عریضہ ان کی خدمت میں بھیجا، اور اس میں امام راغب کی عبارت مذکورۂ بالا نقل کردی، جواب جو موصول ہوا اس کو خلاصۃ یوں بیان کیا جاسکتا ہے، کہ ” اولا تو ایسی تاویلیں ان صحیح ومسلم اور عقلی قواعد کے آکر مخالف پڑتی ہیں۔ النصوص تحمل علی ظواھرھا لایعید الی المجاز الا اذا تعذرت الحقیقۃ الناطق یقضی علی الساکت۔ ثانیا، خود الفاظ قرآنی اس تاویل کو مستبعد بتا رہے ہیں، مثلا لفظ (آیت) ” جعل “۔ تصییر پر دال ہے، تو اس کا مفعول ثانی ایسی ہی چیز ہوسکتی ہے جو پہلی کے خلاف ہو، اور قردۃ وخنازیر بالتاویل تو وہ خود ہی ہوچکے تھے، اس میں (آیت) ” جعل “۔ کے کیا معنی۔ اس (آیت) ” جعل “۔ کا تو یہ حاصل ہوا کہ جعل القردۃ قردۃ وجعل الخنازیر خنازیر یابہ عبارت دیگر جعل الخبیثین خبثین کیا اس سے کلام کے بےمعنی ہونے کا شبہ قوی نہیں ہوسکتا، جو کلام اللہ سے نہایت مستبعد ہے۔ ثالثا جب وہ خود خبیث ہوچکے تھے تو اب ان کی خبیث بنانے کے کیا معنی، رابعا سورة بقرہ میں ہے۔ (آیت) ” فجعلنھا نکالا لما بین یدیھا وما خلفھا وموعظۃ للمتقین “۔ تو سزا پر تو نکال اور (آیت) ” موعظۃ “۔ صادق آتا ہے مگر عقائد واخلاق فاسدہ تو خود موجب سزا ہیں نہ کہ سزا۔ غایۃ مافی الباب ایسی تاویل کو نص کی تکذیب نہ کہیں گے لیکن کیا بدعت بھی نہ کہیں گے ؟ اگر شبہ کیا جائے کہ بعض سلف کو بدعتی کہنا لازم آتا ہے، تو یہ بدعت اجتہادی محل وعید نہیں، ورنہ اگر اس تاویل کو سنت میں داخل کیا جائے تو جمہور کو بدعتی کہنا لازم آئے گا “۔ گنجائش بہرحال اس تاویل کی بھی موجود ہے۔ واللہ اعلم بحقیقۃ الحال 212 ۔ یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب (آیت) ” عبد “۔ بہ طور فعل پڑھا جائے، اور تقدیر کلام یوں ہوگی، (آیت) ” ومن عبدا لطاغوت “۔ عطف اس صورت میں (آیت) ” من لعنہ اللہ “۔ پر ہوگا۔ جعلوہ فعلا ما ضیا وعطفہ علی فعل ماض وھو غضب ولعن (قرطبی) عطف علی صلۃ من کانہ قیل ومن عبدالطاغوت (کشاف) دوسری ترکیب یہ بھی جائز ہے کہ عبد کو اسم اور عبد کی جمع سمجھا جائے، اس صورت میں عبد کا عطف (آیت) ” القردۃ والخنازیر “۔ پر ہوگا۔ اور پورے فقرہ کے معنی ہوں گے کہ ” انہیں بندر اور سور اور پرستار شیطان بنادیا “۔ طاغوت پر حاشیے پہلے گزر چکے ہیں۔ یہود رفتہ رفتہ کاہنوں کے بہت معتقد اور گرویدہ ہوگئے تھے، اور کہانت وغیرہ تمام شیطانی فنون ان پر غالب آگئے تھے۔ اسی کو شیطان کی پرستاری سے تعبیر کیا گیا، عن عباس ؓ الطاغوت الکھنۃ وکل من اطاع احدا فی معصیۃ اللہ فقد عبدہ (کشاف) مرشدتھانوی (رح) نے فرمایا کہ جب مصلحت دینی ہو تو مخالف کی ذم کو خوب ظاہر کردیا جائے اور یہ صبر وحلم کے منافی نہیں۔ 213 ۔ (اسی دنیا میں) (آیت) ” شرمکانا “۔ آخرت میں کہ وہ مکان دوزخ ہے۔ شر کو یہاں مضاف مکان کی طرف کیا گیا ہے۔ اور مراد اس سے اہل مکان تھی، لان مکانھم النار واما المومنون فلا شرفی مکانھم (قرطبی) جعلت الشرارۃ للمکان وھی لاھلہ للمبالغۃ (مدارک)
Top