Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 83
وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ١ۚ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ
وَاِذَا : اور جب سَمِعُوْا : سنتے ہیں مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَى : طرف الرَّسُوْلِ : رسول تَرٰٓي : تو دیکھے اَعْيُنَهُمْ : ان کی آنکھیں تَفِيْضُ : بہہ پڑتی ہیں مِنَ : سے الدَّمْعِ : آنسو مِمَّا : اس (وجہ سے) عَرَفُوْا : انہوں نے پہچان لیا مِنَ : سے۔ کو الْحَقِّ : حق يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے فَاكْتُبْنَا : پس ہمیں لکھ لے مَعَ : ساتھ الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
اور جب وہ اس (کلام) کو سنتے ہیں جو پیغمبر پر اتارا گیا ہے تو آپ ان کی آنکھیں دیکھیں گے کہ ان سے آنسوبہہ رہے ہیں، اس لیے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لے آئے، سو تو ہم کو بھی تصدیق کرنے والوں میں لکھ لے،271 ۔
271 ۔ یہ تصدیق کرنے کون لوگ تھے ؟ حدیث وسیر کی کتابیں اس پر متفق ہیں، کہ اس سے مراد نجاشی شاہ حبشہ (متوفی 9 ؁ ہجری) اور اس کے درباری ہیں۔ یہ لوگ سچے مسیحی تھے، قبل ہجرت نبوی جب آپ ﷺ نے مکہ معظمہ سے صحابیوں کی ایک جماعت کی ہجرت ملک حبشہ کو کرائی تھی تو ایک موقع پر حضرت جعفر طیار ؓ نے نجاشی کی فرمائش پر سردربار سورة مریم کی آیتیں پڑھ کر سنائیں، اس پر نجاشی اور اہل دربار متا ثر ہو کر روپڑے۔ قال ابن عباس ؓ یرید النجاشی و اصحابہ (کبیر) عن عبداللہ بن زبیر قال نزلت ھذہ الایۃ فی النجاشی و اصحابہ (ابن کثیر) فبکی واللہ النجاشی حتی اخضلت لحیتہ وبکت اساقفتہ حتی اخضلوا مصاحفھم حین سمعوا ما تلا علیھم وثم قال النجاشی ان ھذا والذی جاء بہ عیسیٰ لیخرج من مشکاۃ واحدۃ (ابن ہشام) (آیت) ” ما انزل الی الرسول “۔ یہ سورة مریم کی آیتیں تھیں، فقرأ علیہ صدرا من کھیعص (ابن ہشام) ثم امر جعفر ان یقرأ علیہم القران فقرأ سورة مریم (قرطبی) (آیت) ” اعینہم تفیض “ من الدمع “۔ افاضہ یعنی آنسو کثرت سے رواں ہوگئے۔ خبر مستفیض اذا کثر وانتشر کفیض الماء عن الکثرۃ (قرطبی) اہل علم کا تاثر اسی قسم کا ہوتا ہے، وہ ہائے وائے نہیں کرتے البتہ ان کے آنسو چلنے لگتے ہیں۔ وھذہ احوال العلماء یبکون ولا یصعقون ویسالون ولایصیحون (قرطبی) (آیت) ” مما عرفوا من الحق “۔ کلام حق سے متاثر ہو کر آبدیدہ ہو آنا اور گریہ طاری ہوجانا گویا سنت صالحین ہے۔ توریت میں ہے :۔” سب لوگ شریعت کی باتین سن کر روتے تھے “ (نحمیاہ۔ 8:9) زیادہ ہنسی جس طرح غفلت کی دلیل ہے اسی طرح رقت قلب علامت عبرت پذیری اور بیداری روح کی ہے۔ الحق کا لفظ لانے میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ انجیل میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی زبان سے جس آخری نبی کی پیش گوئی درج ہے اسے تعبیر بھی ” روح حق “ ہی سے کیا (یوحنا۔ 14: 17 ۔ یوحنا 16: 13) مرشدتھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت سے وجد صوفیہ کا اثبات ہوتا ہے۔ اور وجد نام ہے بےاختیاری کی کیفیت محمودوہ کا۔ حالۃ محمودۃ غریبۃ غیر اخیتاریۃ (آیت) ” فاکتبنا “۔ اکتاب یہاں قطع طور پر بنا دینے یا کردینے کے معنی میں ہیں۔ ومعنی فاکتبنا اجعلنا فیکون بمنزلۃ ما قد کتب ودون (قرطبی) (آیت) ” الشھدین “۔ یعنی قرآن کے کلام الہی اور محمد ﷺ کے رسول برحق ہونے کی گواہی دینے والے، قال ابو علی الذین یشھدون بتصدیق نبیک وکتابک (قرطبی) (آیت) ” مما عرفوا من الحق “۔ میں پہلا من سببیہ ہے اس لیے کے معنی میں اور دوسرا میں تبعیضیہ ہے بعض الحق کے معنی میں۔ الاول لابتداء الغایۃ والثانیۃ للتبعیض (کبیر)
Top